تحریر:شوکت ساحل
کشمیر کو یہ طرہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ ہمیشہ سے ہی مذہبی ہم آہنگی، رواداری اور بھائی چارہ کا مرکز رہا ہے ۔گوگہ اس مذہبی روداری کو زک پہنچا نے کے لئے داخلی اور خارجی سطح پر کئی کوششیں کی گئیں ،لیکن اسکی عمارت پھر بھی منہدم نہیں ہوسکی ،کیوں کہ روادری کا جذبہ کشمیریوں کے دلوں بستا ہے اور رنگوں میں خون کی طرح بہتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں بسنے والے ہر مذہب کے لوگ دکھ ،درد اور خوشیوں کو ایکدوسرے کیساتھ بانٹتے ہیں ۔کشمیریوں نے ہر دور میں اخوت اور پیار ومحبت کی مشعل کو فروز اں رکھا اور یہی وجہ ہے کہ امن وامان اور بھائی چارہ، اخوت، برادری، عدم تشدد کے اہم پیامبر’ بابائے قوم مہاتماگاندھی‘ کو بھی امید کی کرن کشمیر سے ہی نظر آئی ۔
گاندھی جی کا اصل نظریہ ’کثرت میں وحدت‘تھا، وہ ہمارے ملک میں کثرت میں وحدت کو دیکھناچاہتے تھے، کیوں کہ ہمارا ملک بھانت بھانت کی بولیوں، تہذیب وتمدن وثقافت، مختلف طرح کے رہن سہن، طرززندگی، بلکہ مختلف علاقوں کی غذائیت کو دوسرے علاقے کی غذائیت سے کوئی نسبت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندی جو کہ ملک کی زبان کہی جاتی ہے، اس وقت وہ رابطے کی زبان نہیں ہے، بلکہ ہمار ے زبانوں کی اختلاف کی وجہ سے انگریزی کو رابطے کی زبان بنایا گیا، جس ملک میں مختلف عقیدے رکھنے والے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی رہتے ہیں، اس قدر تنوع، رنگارنگی کے ساتھ اس ملک کی وحدت ہی ایک بڑی عجیب اور انوکھی چیز ہے، جو اس کو یکسانیت، برابری او روحدت کی تعلیم دیتی ہے، خود بابائے قوم مہاتما گاندھی کا نظریہ بھی یہی تھا کہ رواداری، امن وامان، عدم تشدکو اپنایا جائے، جمہوریت اور سیکولرزم کو فروغ دیا جائے، اسی بھانت بھانت کے کلچر اور تہذیبوں کے ساتھ ہمارے ملک کو وحدت اور یگانگت کا گہوارہ بنایا جائے، بابائے قوم مہاتماگاندھی کا فلسفہ وحدت کی ضرورت کو نہ صرف ہندوستان کو تھی، بلکہ پوری دنیا نے ان کی تعلیمات کو اپنایا، ہر جگہ سارے دنیا میں گاندھی جی کو ہندوستان کا نشان اور روحانی باپ قرار دیا۔
رواداری ان عالمگیر اقدار میں سے ایک ہے جس پر ہم سب کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں عمل کرنا چاہئے۔. یہ ایک اخلاقی ضابطہ ہے جس کا احترام ، عدم تشدد اور امن پسندی سے وابستہ ہے۔
بد قسمتی سے نہ صرف جموں وکشمیر بلکہ پورے میں مذہبی منافرت کے ہاتھوںمذہبی آہنگی کے شیرازے کو بکھرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔
اور سیاست کا عمل دخل بھی ہے ۔اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے اصول کے لئے لوگوں کو مذہب اور ذات پات کے نام پر تقسیم کیا جارہا ہے ۔
یہ روش ملک ِ ہندوستان کے لئے اچھی روایت نہیں ۔اگر مذہبی منافرت کو فوری طور پر نہیں روکا گیا اور اسکی لگام نہیں کسی گئی تو ہندوستان کی گنگا ۔جمنی تہذیب کا جنازہ ہی اٹھ جائے گا ۔
لوگوں کو ایسے سیاستدانوں کی سوچ کے خلاف اپنے ووٹ کی طاقت سے جواب دینے ہوگا اور منڈیت کی طاقت سے الگ تھلگ کرنا ہوگا ۔
لوگوں پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منافرت پھیلانے والے عناصر کی کوششیں بھی ناکام بنائیں ،عوام کی طاقت کے سامنے کوئی اور بڑی طاقت ہو ہی نہیں سکتی ۔
مرکزی ،ریاستی اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی سرکاروں کو ہم آہنگی کے پیغام کو عام کرنے کے لئے مہم چلانی چاہیے۔
مذہبی منافرت سے کچھ وقت کے لئے سیاسی مقاصد حاصل تو کئے جاسکتے ہیں لیکن ایک ملک پائیدار اور خوشحال نہیں بن سکتا ہے ۔
کیوں کہ کسی بھی ملک میں عدم استحکام اُسکی تباہی کی بنیادی وجہ ہوتی ہے،خواہ وہ کسی بھی شکل میں کیوں نہ ہو ۔ایسے میں دور اندیشی کی ضرورت ہے ۔




