وادی کشمیر کے کسانوں کی اچھی خاصی آمدنی دودھ کی پیداوار سے حاصل ہو رہی ہے اور اسی لئے زیادہ تر بے روزگار نوجوان گائے فار م بنانے کی کوششوں میں لگے ہیں، جو ایک اچھی سوچ ہے لیکن مال مویشی کے فار م تعمیر کرنے سے جہاں بہت زیادہ فائدہ حاصل ہو رہا ہے ،وہیں بہت سارے نقصانات کا اندیشہ بھی رہ جاتا ہے ۔
وادی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں مویشیوں میں لمپی سکن بیماری پھیل چکی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف دودھ کی پیداوار میں کمی آرہی ہے بلکہ مویشیوں کے مرنے کا بہت زیادہ احتمال بھی رہتا ہے ۔
اعداد وشمار کے مطابق ضلع اننت ناگ میں اب تک لگ بھگ 35ہزار کے قریب مویشیوں میں یہ بیماری پھیل چکی ہے اور زمینداروں میں تشویش لاحق ہوچکی ہے ۔
اگر چہ محکمہ اینمل ہسبنڈری نے اس سلسلے میں کئی اقدامات اُٹھائے ہیں اور خصوصی ٹیکہ کاری مہم شروع کی ہے۔
تاہم اُن کا ماننا ہے کہ یہ بیماری بڑی تیزی کےساتھ پھیل رہی ہے اور زمینداروں کو اس بیماری کو روکنے کیلئے باخبر کیا جا رہا ہے ۔
بتایا جاتا ہے کہ جس طرح انسانوں میں کورونا وائرس بڑی تیزی کےساتھ میل جول سے پھیل رہا ہے، اسی طرح مویشیوں میں بھی یہ بیماری پھیل رہی ہے ۔
اسی بیماری کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب گائے یا دیگر مویشی کم چارہ یا گھاس وغیرہ کھائیں اور گائے دودھ دینا کم کریں اور تیز بخار شروع ہو جائے تو یہ کہنا آسان ہے کہ اس جانور میں لمپی سکن بیمار ی ہو سکتی ہے ۔
بہرحال اس بیماری سے متعلق طبی ماہرین کو نہ صرف گھر گھر جا کر علاج ومعالجہ مویشیوں کا کرنا چاہیے بلکہ لوگوں کو باخبر کرنا چاہیے کہ کس طرح وہ اپنے مویشیوں خاصکر گائے کو اس بیماری سے محفوظ رکھ سکں گے کیونکہ اگر خدانہ خواستہ یہ بیماری پوری طرح پھیل گئی تو آئندہ کوئی بھی کسان مویشی پالنے سے پرہیز کرئے گا بلکہ دودھ ،گوشت کی کمی بھی محسوس کی جائے گی کیونکہ وادی کے دیہی علاقوں کے لوگ زیادہ ترمویشی پالنے سے ہی اپنا گذارہ چلاتے ہیں، اُن میں غربت وافلاس پھیل جائے گی ۔
مزید بے روزگاری بڑھ جائے گی اور نوجوان ایسے فار م ،شیپ فارم یا مرغ فارم قائم کرنے سے پرہیز کریں گے جس کی جانب دیہی علاقوں میں اس وقت کافی زیادہ رجحان پایا جاتا ہے ۔
محکمہ اینمل ہسبنڈری کی یہ اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس حوالے سے ہنگامی اقدامات اُٹھا کر کسانوں میں پھیلی تشویش کو دور کرے اور بیماری سے متعلق ایڈوائزی جاری کرے ۔





