تحریر:شوکت ساحل
سب سے پہلے ’جموں وکشمیر آف پروفیشنل انٹرنس ایکزامینیشنز ‘(بوپی ) کی بے ضابطگیوں سے متعلق مختصر جان لیں ۔
جموں وکشمیر کے اسپیشل انٹی ۔کورپشن کورٹ نے سنہ2018میں ایک غیر معمولی اور تاریخ ساز فیصلے کے تحت سنہ2012ایم بی بی ایس پرچوں سے متعلق اسکینڈل میں( بوپی) کے سابق چیئرمین مشتاق احمد پیر اور دیگر42افراد کو قصور وار پاکر سزا سنائی تھی ۔
جموں وکشمیر میں مقابلہ جاتی امتحانات کے پرچے فروخت کرنے کے الزام میں بورڈ آف پروفیشنل امتحان (بوپی) کے سابق چیئرمین مشتاق احمد کو عدالت نے 16 برس قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ کی سزا سنائی تھی۔
اس اسکینڈل نے جموں وکشمیر میں شعبہ طب کو اس قدر متاثر کیا تھا ،اس کی گونج دور دور تک سنائی دی تھی ۔اس کے بعد کرکٹ اسکینڈل اور دیگر بے ضابطگیاں منظر عام پر آئیں جبکہ کورپشن کے خاتمے کے خلاف کام کرنے والے اداروں نے کئی افسران اور سرکاری ملازمین کو رشوت کے الزامات رنگے ہاتھوں بھی دھر لیا اور یہ سلسلہ جموں وکشمیر میں عام ہوتا جارہا ہے ،لیکن اس کے باوجود کورپشن کا کالا دھندہ جاری ہے ۔
ایسا کیوں ہے ؟اس پر بات کریں گے ،لیکن پہلے آج یعنی منگل کی صبح سویرے آنے والی اس خبر پر نظر ڈالتے ہیں ۔مرکزی تفتیشی ایجنسی (سی بی آئی) نے پولیس سب انسپکٹر بھرتی گھوٹالے کے سلسلے میں جموں وکشمیر سمیت ملک میں 33 مقامات پر چھاپے مارے۔
خبر کے مطابق سی بی آئی نے منگل کی صبح جموں و کشمیر سروس سلیکشن بورڈ (جے کے ایس ایس بی) کے سابق چیئر مین خالد جہانگیر اور جے کے ایس ایس بی کے امتحانات کے کنٹرولر اشوک کمار اور ایک ڈی ایس پی سمیت جموں وکشمیر پولیس کے کچھ افسروں اور سی آر پی ایف کے کچھ افسروں کی رہائش گاہوں پر تلاشی کارروائیاں انجام دیں۔
جموں اور سری نگر کے علاوہ کرنال، مہندر گڑھ، گجرات کے گاندھی نگر، دہلی، اتر پردیش کے غازی آباد اور کرناٹک کے بنگلورو میں بھی تلاشی کارروائیاں انجام دی گئیں۔
پولیس سب انسپکٹر کی اسامیوں کے لئے سال رواں کے27 مارچ کو امتحانات منعقد ہوئے تھے جبکہ ان کے نتائج کا اعلان4جون کو کیا گیا تھا۔کامیاب امیدواروں کی فہرست جاری ہوتے ہی ان امتحانات میں بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آئے تھے جس کے پیش نظر حکومت نے تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جبکہ فہرست کو ایل جی انتظامیہ نے منسوخ کیا تھا ۔فائنس اسسٹنٹ اکاﺅنٹس (ایف اے اے) بھرتیوں سے متعلق فہرست کو بھی منسوخ کیا گیا ۔بہرکیف آج کی خبر پر نظر ڈالیں اور سی بی آئی کی تفتیش کے زاویے کو دیکھیں تو یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ مبینہ اسکینڈل کی تاریں ملک کی مختلف ریاستوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہےں ۔ویسے بھی کورپشن کے خاتمے کے خلاف کام کرنے والے ادارے آئے روز رنگے ہاتھوں ملازمین اور اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری افسران کو دھر لیتے ہیں ،اور یہ ایک معمول بنتا جارہا ہے ۔
اس کے باوجود کورپشن اور رشوت کی طلب یا پیاس کیوں بڑھ رہی ہے ؟۔حالیہ دنوں جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گور نر ،منوج سنہا نے ایک نجی نیوز چینل کے پروگرام میں کہا تھا کہ جموں وکشمیر میں اب سرکاری نوکریوں کی خرید وفروخت کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور اسکینڈلز میں مبتلاءکسی بھی شخص کو بخشا نہیں جائے گا ،یعنی قصور واروں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی ۔یہ بیان راحتِ قلب کے مترادف ہے ،کیوں کہ بات ’میرٹ ‘ کی ہورہی ہے ۔میرٹ ہی ملک وقوم کے مستقبل کا تعین ہے ۔جموں وکشمیر میں آج ہر کوئی نوجوانوں کے روشن مستقبل کو محفوظ بنانے کا دعویٰ اور وعدہ کرریا ہے۔
سیکیورٹی ایجنسیاں ہو ںیا سیاسی پارٹیاں ،انتظامی افسر ہوں یا کوئی اور ۔۔۔دعوے اور وعدے نوجوانوں کے محفوظ مستقبل کے کئے جارہے ہیں ۔لیکن اگر نوجوان ہی استحصالی عنصر کا شکار ہورہے ہوں ،تو مستقبل تابناک اور روشن ومحفوظ کیسے ہوسکتا ہے؟
جموں وکشمیر میں آج تک کورپشن کے بڑے مگر مچھوں کے خلاف کوئی قرار واقعی ،عبرتناک اور مثالی کارروائی نہیں ہوئی ۔عدالتوں میں کیسوں کو الجھایا جاتا ہے ،ضمانتیں حاصل کی جاتی ہیں اور عیش وعشرت کی زندگی گزاری جاتی ہے ۔عدالتوں کو فاسٹ ٹریک بنیادوں پر ایسے کیسوں کا نپٹا را کرنا ہوگا ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ٹھوس شواہد اور ثبوت کیساتھ عدالتوں میں کیسوں کو پیش کرنا چاہیے ۔تب جاکر انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے ۔
بے ضابطگیوں میں ملوث تمام لوگوں کوقانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا، کیونکہ یہ معاملہ اگر دب گیا تو کم از کم ہم اپنی آنے والی نسلوں کو یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ’بیٹا پڑھائی کرو تاکہ تمہیں اچھی نوکری مل سکے اور تم شعور حاصل کر سکو‘۔ شعور تو شاید اسے آ جائے گا مگر نوکری کیسے ملے گی ؟،جب نوکری دینے والے اداروں میں یہ بولی لگ جائے کہ ’نوکری، پرچے اور عہدے برائے فروخت‘ہےں۔ لہٰذا خدا را جموں وکشمیرکے نوجوانوں پہ رحم کیا جائے اورمیرٹ کی بنیاد پر ہر شعبے میں بھرتیاں عمل میں لائی جائیں ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔





