وقف بورڈ کی چیئرپرسن محترمہ درخشاں اندرابی کا ایک بیان نظروں سے گذرا جس میں انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ وقف سے دیا گیا قرضہ حسنہ کا کوئی ریکارڈ نہیں ۔
جہاں تک جبری چندہ وصولنے والوں کا تعلق ہے اُن پر قدغن لگائی گئی جس کی عوام حلقوں میں کافی سراہنا کی جا رہی ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف چندسو روپہ وصولنے والوں کےخلاف طاقت کا استعمال ہو رہا ہے؟ ۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اسی وقف کے پیسے سے یہاں کے بہت سارے گھرانے زیروسے ہیرو بن گئے ہیں ۔
انہوں نے وقف جائیداد کو اپنی ذاتی میراث مان کر یہاں جمع دولت کو دودوہاتھوں سے لوٹ لیا ہے ۔جب آپ کھلے عام خود کہہ رہی ہیں کہ قرضہ حسنہ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے، پھر کس کے خلاف اور کیسے کارروائی ممکن ہے ۔
یہ پتہ کیسے چلے گا ؟کہ کس نے یہاں سے رقومات حاصل کیں ،کس نے گھپلاکیا ہے اور کون اس عوامی جائیداد کو نقصان پہنچانے کیلئے ذمہ دار ہے؟ ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملوث لوگوں کو عوام کی عدالت میں کھڑا کرکے سرعا م سزا دی جانی چاہیے ، نہ کہ سیاست اس معاملے میں بھی آڑے آئے۔
جیسے کہ باقی بے ضابطگیوں میں سیاست رکاوٹ بن گئی ہے اور کسی کو بھی آج تک سزا نہیں ملی ۔جہلم کے کنارے راہل یہی کچھ سو چ رہا ہے، آخر کیا ہو گا ؟۔





