ملک کی سیاست نے ایک منفرد رخ اختیار کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں سیاستدان الگ الگ سیاسی پارٹیاں وجود میں لارہے ہیں۔
اسطرح کسی حد تک جمہوریت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جب ہم ماضی کو دل کے جھروکوں سے دیکھتے ہیں تو یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ جو پرانے ایام میں نظریاتی بنیادوں پر سیاستدان اپنی سیاست چلاتے تھے، اب یہ کہیں نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ سیاستدانوں نے صرف اقتدار کو اپنی منزل بنالیا ہے اور کوئی بھی سیاستدان اب نظریات کی بنیادوں پر ووٹر وں کو اپنی جانب راغب نہیں کر پاتا ہے ۔
جہاں تک ووٹران کا تعلق ہے وہ بھی بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ اکثر سیاستدان ووٹروں کے کندھوں پر چڑھ کر اپنی منزل یعنی اقتدار حاصل کررہے ہیں اور وہ بعد میں ووٹروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں،دہلی سے سرینگر تک اس طرح کی صورتحال نظر آرہی ہے ۔
غالباً اسی لئے روز نئی نئی پارٹیاں وجود میں آرہی ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرنا چاہتا ہے ۔
ووٹر حضرات اُسی پارٹی کےساتھ جانا غنیمت سمجھتے ہیں جس پارٹی کےساتھ اُن کو زیادہ سے زیادہ فائدے ملنے کی اُمید جاگ جاتی ہے ۔
جموں وکشمیر کے سیاسی حلقوں میں اُس وقت کھلبلی مچ گئی جب قد آور سابق کانگریس لیڈر غلام نبی آزا د کانگریس سے الگ ہوگئے اور انہوں نے اپنی الگ پارٹی بنانے کا اعلان کیا اور اس حوالے سے 4ستمبر کووہ اپنے ساتھیوں کےساتھ مل کر جموں میں ایک عوامی ریلی بھی منعقد کرنے جارہے ہیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ آج تک جن سیاسی پارٹیوں نے عوام کے سامنے اپنا نظر یاتی خاکہ پیش کیا بعد میں یاتووہ اُس خاکے میں رنگ نہ بھر سکے یا پھر اقتدار کی ہوس کا شکار ہو کر اپنے ہی نظریہ سے منہ موڑنے کیلئے مجبور ہو گئے ۔
بہرحال ملک میں جس تیزی سے نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہو رہا ہے، اُس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ آنے والے چند برسوں میں اپوزیشن کا خاتمہ ہو جائے گا، جو ایک صحت مند جمہوری نظام کیلئے ہر گز اچھی بات نہیں ہے ۔
کیوں کہ طاقتور حکومت کےلئے طاقتور اپوزیشن کا ہونا لازمی ہے ۔ملک کے پالیسی سازو ں ،سیاسی مشیروں اور قد آور لیڈران کو اس حوالے سے سنجیدگی سے غور وفکر کرنی چاہیے، تاکہ ملک کا جمہوری نظام بہتر بن سکے اور نظریاتی اختلاف کو ذاتی جنگ تصور نہیں کرنا چاہیے۔





