جہلم کے کنارے بیٹھ کر راہل یہ دیکھ رہا تھا کہ ایک زمانے میں اس جہلم میں شکاروں میں ہزاروں لوگ سوار ہو کر صرف ہل والے جھنڈے ہاتھوں میں لئے نعرہ بازی کر رہے تھے اور روسی صدر اور مرحوم شیخ محمد عبد اللہ کی واہ واہ کرتے تھے ۔
آج اسی جہلم کے کناروں پر بڑے بڑے ہوٹل اور عالی شان بنگلے ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی مستی میں مگن ہے ۔وہ صرف دولت کمانے میں لگ گئے ہیں ۔
دولت کمانا اچھی بات ہے لیکن لوگ اس دولت سے کیا کچھ حاصل کررہے ہیں، نہ رات کا سکون نہ ہی دن کا آرام ،نہ ڈھنگ سے دو وقت کی روٹی میسر ہورہی ہے اور نہ ہی وہ صحت جو دولت سے ہر گز خریدی نہیں جا سکتی ہے ۔
رو ز نوجوان لڑکے اس جہلم میں خودکشی کرتے نظر آرہے ہیں ،کوئی غربت وافلاس کا بہانہ بنا کر تو کوئی بے روزگار ی اور مشکلات کا بہانہ بنا کر کوئی گھریلو جھگڑوں کی وجہ لیکر اور کوئی سماجی مسائل سامنے رکھ کر ۔۔۔غرض انسان جہلم کے کناروں کے وہ مناظر بھی یادنہ رکھ سکا، جہاں دنیا کے قدرآور سیاسی شخصیات آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے، آج وہ لوگ بھی زمین میں دفن ہیں ۔
پھر اسی دولت وشہرت کیلئے کس بات کیلئے انسان پریشان ہے ، جس کا ایک دن خاتمہ ہو جائے گا ۔





