بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
8.7 C
Srinagar

گر جہلم روٹھ گیا تو۔۔۔۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

بی بی سی اردو سروس کے نامہ نگار وسعت اللہ خان نے سنہ2010 میں پاکستان میں آئے تاریخ کے سب سے بڑے تباہ کن سیلاب کے دنوں میں ڈھائی ماہ کے عرصے کے دوران 4 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا۔

یہ سفر پیدل، کشتی، ٹریکٹر اور مختلف گاڑیوں میں طے کیا گیا۔ جس کے بعد انہوں نے(وسعت اللہ خان نے) پاکستان کے تباہ کن سیلاب اور متاثرین کی زندگی پر ڈائری لکھ ڈالی ۔

بی بی سی اردو سروس کے سابق مدیر اور مصنف محمد حنیف نے وسعت اللہ خان کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سیلاب ڈائری میں کبھی مزیدار سفر نامہ اور کبھی مہم جوئی کی کہانی نظر آتی ہے۔

ان کے مطابق وسعت خان نے ان ڈائریوں میں یہ بتایا ہے کہ لوگ کس طرح زندہ رہتے ہیں، ان کے زندہ رہنے کی شکل کیا ہے۔ وہ کس طرح آپس میں بات کرتے ہیں، زمین اور ریاست کے ساتھ ان کا رشتہ کیا ہے۔

اس وقت ایک مرتبہ پھر پاکستان کو تباہ کن سیلاب کے پنجے نے جگڑ رکھا ہے ۔پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے حوالے سے جو خبریں سامنے آرہی ہیں ،اُنہوں نے جموں وکشمیر میں سنہ 2014میں آئے قہر انگیز سیلاب کی یاد یں بھی تازہ کیں ،کیوں کہ اُس تباہ سیلاب کا میں عینی شاہد بھی ہوں ۔

جہاں میں نے تباہ کن سیلاب سے متعلق خبریں قلمبند کیں ،وہیں میں نے ایک وسیع تجربہ بھی حاصل کیا ۔ دراصل ہم ناگہانی آفات سے نمٹنے کے لئے عملی طور پر تیار ہی نہیں ہوتے ۔ہم اتنے لالچی اور خود غرض ہوچکے ہیں کہ ہمیں بس اپنی ذات دکھا ئی دے رہی ہے اور کچھ نہیں !ارباب اقتدار بھی اپنی ہی الگ دنیا میں جی رہے ہیں ۔

گزشتہ مہینے ہم نے دیکھا کہ موسم نے جب بھی کروٹ بدلی نہ صرف پیر پنچال کے آرپار زندگیوں کا اتلاف ہوا بلکہ لوگوں کی عمر بھر کی کمائی بھی تباہ ہوئی۔سیلابی ریلے زندگیوں کو بہاتے لے گئے اور لوگ بے بس محتاج نظر آئے ۔

یہی تو ہوتا ہے جب ناگہانی آفت انسان کو غرق کردیتی ہے اور یہ احساس دلانے کی کوشش کرتی رہتی ہے کہ فطرت کیساتھ چھیڑ چھاڑ آپ کی تباہی بن سکتی ہے ،لیکن اس کے باوجود نہ عام لوگ اور ناہی وقت کے حکمران ایسی تباہی سے محفوظ رہنے کے لئے کوئی کار گر اور مﺅثر حکمت ِ عملی یا منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ناہی کوئی سبیل کرتے ہیں ۔

اگر وقت کے حکمرانوں سے یہ پوچھا جائے کہ کیا ہم سنہ2014جیسے تباہ کن سیلاب سے محفوظ رہ سکتے ہیں ؟،اُن کا جواب ضرورآئے گا ،لیکن اس میں اعتماد کی کمی ضرور ہوگی ،کیوں کہ دریائے جہلم ،جو اس وقت خاموشی کیساتھ بہہ رہا ہے ،جب غصے میں آکرآگ اُگلنا شروع کردیتا ہے ،تو سب ہاتھ ملتے رہتے ہیں ۔

دریائے جہلم میں گزشتہ 8برسوں کے دوران کتنی ڈریجنگ ہوئی ،کتنے غیر قانونی تعمیرات ہٹائے گئے ،کتنی عالیشان عمارتیںاس کے کناروں پر تعمیرکی گئیں ،اجازت کس نے دی ؟

یہ وہ سوالات ہیں ،جن کے جوابات لیکر وقت کے حکمرانوں کوسامنے آنا چاہیے اور یہ بتانا چاہیے کہ کیا ہم تباہ کن سیلاب اور اسکی تباہ کاریوں سے محفوظ ہیں یا نہیں ؟

دریائے جہلم میں آبی ٹرانسپورٹ کا منصوبہ فوت ہوچکا ہے ،کیوں کہ اس حوالے سے منصوبہ بندی پائے تکمیل تک نہیں پہنچی ،ایسا لگتا ہے اور ہم محسوس کررہے ہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کا منصوبہ بھی کسی سرکاری الماری میں دھول چاٹ رہا ہے ۔

اس سے پہلے ہمیں کسی اور تباہی کا سامنا کرنا پڑے ،وقت کی انتظامیہ کو چاہیے وہ مﺅثر منصوبہ بندی ترتیب دے ۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img