منگل, دسمبر ۱۶, ۲۰۲۵
8.1 C
Srinagar

اللہ کی ذات پر بھروسہ ۔۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

امریکی محققین کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ سرفنگ وقت کا ضیاع نہیں ۔اس موضوع پر اگلے کالم میں ضرور وضاحت کریں گے،لیکن آج ہم بات اپنے موضوع پر کرتے ہیں ۔گزشتہ روز میں بھی ’سرفنگ ‘میں مصروف ِ عمل تھا کہ ایک ایسی خبر پر نظر پڑی نے جس نے کروڑوں لوگوں کیساتھ ساتھ مجھے بھی چونکا دیا ۔

جی ہاں ! خبر ایک ایسی انو کھی دکان کی تھی ،جس کانہ کوئی دروازہ ہے اور ناہی کوئی دکاندار ۔

حیرانگی ہورہی ہے نا! مجھے بھی ہوئی ۔جو خبر میری آنکھوں سے گزری وہ کچھ اس طرح کی تھی ۔۔۔۔آپ بھی ملحاظہ فر مائیں ۔۔’ایسی دکان جہاں نہ کوئی دروازہ، نہ کوئی دکاندار، گاہک سامان لے کر پیسے رکھ لیتے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر عجیب لگے گا لیکن گجرات کے ’چھوٹا ادے پور‘ میں ایک ایسی دکان ہے جس کا دروازہ گزشتہ 30 سالوں میں کبھی بند نہیں ہوا۔

سامان لینے کے بعد دکاندار گاہک سے پیسے بھی نہیں مانگتا، ایسی صورت حال میں کیا کوئی دکاندار نامعلوم گاہکوں پر بھروسہ کر سکتا ہے؟ لیکن آج ہم آپ کو گجرات کی ایک انوکھی دکان کی کہانی سنانے جارہے ہیں جو سال میں12 مہینے اور دن میں 24 گھنٹے کھلی رہتی ہے۔ اس دکان کا دروازہ تک نہیں ہے۔

دکان کا مالک موجود ہو یا نہ ہو، دکان گاہکوں کے لیے کبھی بند نہیں ہوتی۔ یہی نہیں دکاندار سامان لینے کے لیے دکان پر آنے والے گاہک سے پیسے بھی نہیں مانگتا۔

گاہک خود اپنی ضرورت کا سامان لے کر پیسے لے کر چلے جاتے ہیں۔آپ حیران ہوں گے لیکن یقین کریں ایسی ہی ایک انوکھی دکان گجرات کے چھوٹا ادئے پور ضلع کے کیواڑی گاوں میں موجود ہے۔

گزشتہ30 سال سے چل رہی یہ دکان کبھی بند نہیں ہوئی۔

اس دکان کے مالک شاہد بیکارپوروالا عرف سید بھائی سے اس منفرد دکان کے بارے میں جب بات کی گئی اور اس کے پیچھے ان کی سوچ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی تو سید بھائی نے بڑے دلچسپ انداز میں بتایا کہ جب وہ18 سال کے تھے ،تو انہوں نے یہ انوکھی دکان شروع کی۔انہوں نے کہا کہ یہ دکان شروع سے ہی گاہک کے بھروسے پر چل رہی ہے اور آئندہ بھی اسی طرح چلتی رہے گی۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ سید بھائی کی دکان دن رات کھلی رہتی ہے۔ لوگ یہاں سے جو چاہیں لے سکتے ہیں۔ نیز، وہ اپنی مرضی کے مطابق پیسے دیتے ہیں۔

پہلے تو گاوں کے لوگوں کو بہت عجیب لگا۔ سب سوچ رہے تھے کہ یہ کیسی دکان ہے اور بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے شکوک و شبہات تھے۔ لیکن پھر سید بھائی گھر گھر جا کر لوگوں کو اپنی بات سمجھانے لگے۔

وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ آپ کو اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تومیری دکان پر آئیں وہ اآپ کے لیے ہمیشہ کھلی رہے گی، وہاں سے آپ جو چاہیں لے سکتے ہیں۔

آہستہ آہستہ لوگ دکان پر بھروسہ کرنے لگے۔ سید بھائی ایک منفرد سوچ رکھنے والے انسان ہیں۔ سید بھائی بتاتے ہیں کہ کسی بھی کاروبار کا صرف ایک اصول ہوتا ہے اور وہ ہے اعتماد۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں نے آج تک کوئی بھی غلط کام نہیں کیا ہے۔ اس زندگی میں میں صرف اللہ سے ڈرتا ہوں۔

انسانوں سے مجھ کو ڈرتے نہیں لگتا۔ اس سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے، میں نے اس منفرد دکان کو اس طریقے سے چلانا شروع کیا۔

سید بھائی کی منفرد دکان کی طرح ان کے خیالات بھی کافی منفرد ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جن لوگوں کے لیے وہ کام کر رہے ہیں انہیں ڈرایا نہیں جانا چاہیے۔ ایک انوکھی دکان ہے جس کے دروازے نہیں ہیں اور اس میں کبھی چوری نہیں ہوئی۔ اس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ چار سال پہلے پہلی بار میری دکان میں چوری ہوئی تھی۔

لیکن پیسے کے بجائے چور بیٹری چوری کرکے لے گئے۔ پھر پولیس بھی دکان پر آئی لیکن میں نے شکایت نہیں کی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ چور نے پیسے نہیں چرائے۔شاید اسے بیٹری کی ضرورت ہوگی، اس لیے اس نے صرف بیٹری لی۔ سید بھائی نے بتایا کہ ان کے والد ایک تاجر تھے۔

گاوں والے اسے ابھا سیٹھ کے نام سے جانتے تھے۔ آج وہی کنیت سید بھائی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ان کی انوکھی دکان ’ابھا سیٹھ کی دکان‘ کہلاتی ہے۔

اس کی انوکھی دکان میں کولڈ ڈرنکس، دودھ سے لے کر جرنل سٹورکی سبھی چیزیں ملتی ہیں۔

‘یہ بات قدرے عجیب تو لگتی ہے لیکن مثبت سوچ ،اعتماد اور اللہ کی ذات پر بھروسہ کی تعلیم بھی دیتی ہے ۔

موسم سرما کے دوران جب برفباری کی وجہ سے وادی کا زمینی رابطہ منقطع ہوتا ہے اور جب حالات کروٹ بدلتے ہیں ،تو یہاں کے دکاندار سید بھائی کی سوچ کے ساتھ آگے نہیں آتے بلکہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب عوام کی جیبوں پر ہاتھ صاف کریں ۔مہنگائی کے نام پر گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی عام کی جاتی ہے ۔

5روپے کے انڈے کو 10روپے میں فروخت کیا جاتا ہے ،اسی طرح سبزیاں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں اور یہ سلسلہ مہینوں نہیں بلکہ سال بھر چلتا رہتا ہے ۔

ایسا نہیں کہ سرکار نے نگراں اسکارڈ تشکیل نہیں دیئے ہیں ،لیکن وہ عید کی چاند کی طرح عید پر ہی نظر آتے ہیں ۔

سرکار کو قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے اپنے فرائض کو سمجھنا ہوگا اور بازاروں میں گراں فروشی کو روکنے کے لئے پالیسی مرتب کرنی چاہیے ۔تاہم دکا نداروں اور صارفین کو سید بھائی کی مانند بننا چاہیے ۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img