ہفتہ, ستمبر ۲۰, ۲۰۲۵
26.9 C
Srinagar

خدشات ،انتخابات اور حق رائے دہی ۔۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

بھارت میں وفاقی حکومت،جو مرکزی سرکار کہلاتی ہے ،جس کے افسران وفاقی، ریاستی اور مقامی سطح پر انتخابات کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں۔

قومی سطح پر سربراہ حکومت وزیر اعظم ہوتا ہے جسے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا کے اراکین منتخب کرتے ہیں۔

انتخابات کے انعقاد و انتظام کی مکمل ذمہ داری بھارتی الیکشن کمیشن کے سپرد ہے جسے آئین ہند کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ لوک سبھا کے تمام اراکین (ان میں وہ دو ارکان مستثنیٰ ہیں جنہیں براہ راست صدر جمہوریہ منتخب کرتا ہے) کو ہر پانچ سال میں ہونے والے عمومی انتخابات کے ذریعہ بالغ رائے دہندوں کے ووٹوں کی مدد سے منتخب کیا جاتا ہے۔

پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے ارکان کو بھارت کی متحدہ عمل داریوں اور صوبوں کی قانون ساز اسمبلیوں کے منتخب شدہ اراکین منتخب کرتے ہیں۔

قومی انتخابات کی فہرست:راجیہ سبھا کے ارکان بالواسطہ طور پر منتخب ہوتے ہیں اور یہ تقریباً مکمل طور پر علاحدہ علاحدہ ریاستوں کی اسمبلی کے ارکان کی جانب سے منتخب کیے جاتے ہیں، جبکہ12 ارکان کی نامزدگی بھارت کا صدر کرتا ہے۔

عام طور پر اس میں بھارت کے وزیر اعظم کا مشورہ اور رضامندی شامل ہوتی ہے۔صدارتی انتخابات:بھارت کے صدارتی انتخابات 5سال کے لیے بالواسطہ طور پر کیے جاتے ہیں۔

ان کے لیے الیکشن منڈل کا استعمال کیا جاتا ہے جہاں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے رکن اور بھارت کے تمام علاقوں اور ان کی قانون ساز اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ دیتے ہیں۔نظام انتخابات:بھارتی پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ اور دو ایوان شامل ہیں جو مقننہ کہلاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پانچ سالہ مدت کے لیے بھارت کے صدارتی انتخابات کرائے جاتے ہیں جن میں یونین اور ریاستی اسمبلیوں کے ارکان ووٹ دیتے ہیں۔بھارتی پارلیمنٹ کے دو ایوان ہیں، لوک سبھا جس میں 545 ارکان ہوتے ہیں۔

543 ارکان کا انتخاب پانچ برس کی مدت کے لیے ہوتا ہے جبکہ بقیہ دو ارکان کو اینگلو بھارتی برادری کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔550 ارکان کا انتخاب اکثریتی انتخابات کے نظام کے تحت ہوتا ہے۔

ریاستی کونسلوں (راجیہ سبھا) میں 245 ارکان ہوتے ہیں جن میں233 ارکان چھ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں، جن میں سے ہر دو سال میں ایک تہائی سبکدوش ہو جاتے ہیں۔

ان ارکان کا انتخاب ریاست اور مرکز (یونین) کے زیر انتظام علاقوں کے ارکان اسمبلی کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ منتخب شدہ ارکان کا انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت ہوتا ہے۔

بارہ نامزد ارکان کو عام طور پر نامور فنکاروں (بشمول اداکار)، سائنسدانوں، قانون دانوں، کھلاڑیوں، تاجروں، صحافیوں اور عام لوگوں میں سے منتخب کیا جاتا ہے۔الیکشن کمیشن:بھارت میں انتخابات کا انعقاد آئین ہند کے تحت بنائے گئے بھارتی الیکشن کمیشن کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

یہ مستحکم روایت ہے کہ ایک بار انتخابی عمل شروع ہو جائے تو کوئی عدالت الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج کا اعلان کیے جانے تک کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کر سکتی۔

انتخابات کے دوران میں الیکشن کمیشن کو بہت سے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں اور بوقت ضرورت یہ شہری عدالت کی حیثیت سے بھی کام کر سکتا ہے۔

انتخابی عمل:بھارت کے انتخابی عمل میں ریاستی اسمبلی انتخابات کے لیے کم از کم ایک ماہ کا وقت لگتا ہے جبکہ عمومی انتخابات کے لیے یہ مدت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ رائے دہندگان کی فہرست کی اشاعت انتخابات سے قبل ایک اہم کام ہے، یہ فہرست بھارتی انتخابات کے انعقاد کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

آئین ہند کے مطابق کوئی بھی شخص جو بھارت کا شہری ہے اور اس کی عمر18 سال سے زیادہ ہے، وہ اس فہرست میں رائے دہندہ کی حیثیت سے شامل ہونے کے قابل ہے اور یہ اس شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فہرست میں اپنا نام درج کرائے۔

عموماً امیدواروں کے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ سے ایک ہفتہ پہلے تک اس فہرست میں اندراج کی اجازت ہوتی ہے۔

رائے دہندگان کا اندراج:بھارت کے کچھ شہروں میں آن لائن ووٹر رجسٹریشن فارم حاصل کرکے انہیں قریب ترین انتخابی دفتر میں جمع کیے جا سکتے ہیں۔

جاگور ڈاٹ کام جیسی ویب سائٹیں اس اندراج کی معلومات حاصل کرنے کا اچھا ذریعہ ہے۔فاصلاتی رائے دہندگی:اب تک بھارت میں فاصلاتی رائے دہندگی کا انتظام نہیں ہے۔

عوامی نمائندگی ایکٹ (آر پی اے) 1950-51ءکی دفعہ19 کے تحت ایک شخص کو اپنی رائے کے اندراج کا حق ہے، اگر اس کی عمر 18 سال سے زیادہ ہے اور وہ حلقہ میں رہنے والا ’م شہری‘ ہے، یعنی چھ ماہ یا زائد عرصے سے موجودہ پتے پر رہ رہا ہو۔

مذکورہ ایکٹ کی دفعہ20 بھارتی تارکین وطن کو رائے دہندگان کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے کے لیے نااہل قرار دیتی ہے۔

لہٰذا پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں غیر مقیم بھارتی کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

اگست2010 میں عوامی نمائندگی بل (ترمیم شدہ) 2010 کو لوک سبھا میں24 نومبر 2010 کے بعد کی گزٹ اطلاعات کے ساتھ منظور کر دیا گیا، اس بل میں غیر مقیم بھارتی کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی اب غیر مقیم بھارتی بھارت کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے قابل ہو گئے ہیں، لیکن رائے دہندگی کے وقت ان کا بنفس نفیس موجود ہونا ضروری ہے۔

بہت سی سماجی تنظیموں نے حکومت پر زور دیا تھا کہ فاصلاتی رائے دہندگی کے نظام کے ذریعہ غیر مقیم بھارتیوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے مذکورہ ایکٹ میں ترمیم کرنا چاہیے۔

بھارت کے الیکشن کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ بھارت کا کوئی بھی شہری جو مرکز کے زیرِ انتظام جموںو کشمیر میں تجارت کی غرض سے مقیم ہو ، تعلیم حاصل کر رہا ہو یا کوئی اور خدمات انجام دے رہا ہو، ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا اہل ہے۔

چیف الیکٹورل افسر ہر دیش کمار نے سرمائی دارالحکومت جموں میں میڈیاسے گفتگو میں بتایا کہ جموں و کشمیر میں اپریل2020 میں نیا اقامتی قانون متعارف کرایا گیا تھا، جس کی رو سے بعض شرائط کے تحت کسی بھی بھارتی شہری کو یہاں رائے دہندگان کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

مرکزی حکومت نے اگست 2019میں مرکز کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کرکے ریاست کو براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔

اس کے نو ماہ بعد جموں اور وادی کشمیر کے لیے، جو اب یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر کہلاتے ہیں، ایک نیا قانونِ اقامت تشکیل دیا گیا جس نے سابقہ ریاست میں جس میں لداخ کا خطہ بھی شامل ہے جس نے1927 سے لاگو ”سٹیٹ سبجکٹ لا‘ کی جگہ لے لی۔

عارضی طور پر جموں وکشمیر میں رہائش پذیر افراد کو رائے دیہی کا استعمال کرنے حق دینا سے کافی خدشات پیدا ہوگئے ہیں ۔

دفعہ 370 جس کے تحت جموں و کشمیر کو یونین میں خصوصی پوزیشن حاصل تھی البتہ آئین کی اس دفعہ کی منسوخی کے بعد بھارت کے عوامی نمائندہ ایکٹ 1951 کا جموں و کشمیر پر بھی اطلاق ہوا تھا۔

اس ایکٹ کو بھارتی پارلیمان نے ملک کے پہلے عام انتخابات کے انعقاد کے فوراََ بعد آئینِ کی دفعہ327 کے تحت منظور کیا تھا اور اس کی رو سے کوئی بھی بھارتی شہری اپنا نام جموں و کشمیر میں ایک ووٹر کی حیثیت سے درج کراسکتا ہے اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ اسے پہلے اپنے اصلی حلقہ انتخاب کی ووٹر لسٹ سے حذف کرائے۔

دفعہ370 کی منسوخی سے پہلے بھی وہ افراد جو جموں و کشمیر میں عارضی طور پر رہ رہے تھے۔ اپنے آپ کو رائے دہندگان کی فہرست میں شامل کرا سکتے تھے اور غیر مستقل رہائشی ووٹر کہلوانے والے یہ افراد بھارتی پارلیمان کے لیے انتخابات میں ووٹ ڈال سکتے تھے۔

پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں یعنی لوک سبھا کے لیے اپریل اور مئی2019 میں کرائے گئے انتخابات کے دوران جموں و کشمیر میں ایسے غیر مستقل رہائشی رائے دہندگان کی تعداد لگ بھگ 32 ہزار تھی۔

لیکن یہ سوال اب اپنی جگہ قائم ہے کہ عوامی نمائندہ ایکٹ1951کے تحت جموں وکشمیر میں عارضی طور رہائش پذیر لوگ جموں وکشمیر اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے ہیں یا نہیں؟ ۔اگر اہل ہیںتو ڈومیسائل سند کی ضرورت کس قانون کے تحت ضروری قرار دی جارہی ہے ؟قانونی ماہرین کو فوری طور پر عوامی خدشات کو دور کرنا چاہیے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img