تحریر:شوکت ساحل
وادی کشمیر کیساتھ ساتھ پوری دنیا میں اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج ہے ،وہ موسمیاتی تبدیلی ہے ۔
ماہ جولائی اور اگست میں وادی کشمیر میں مون سون کی انٹری ہوئی ،تو زمین سیراب ہوئی لیکن اپنے ساتھ تباہ کاریاں بھی لائی ۔
موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی کی کئی وجوہات ہیں ،فطرت کیساتھ چھیڑ چھاڑ ،قدرت اصولوں کیساتھ حد سے زیادہ دخل اندازی اور قدرتی وسائل کا غیر قانونی لوٹ کھسوٹ شامل ہے ۔
کہتے ہیں کہ’ برسات ایک ایساموسم ہے ،جس کا انتظار ۔۔۔دیہات کے کچے مکانوں میں زندگی گزارنے والوںسے لیکرشہرکی فلک بوس عمارتوں میں رہائش پذیر افراد تک۔اور عام آدمی سے لے کر صاحب ِ اقتدارو اختیار تک، سب کو رہتاہے۔۔۔مگراس موسم کی یہ فطرت ہے کہ،یہ اپنے دوش پرجہاں لہلہاتی فصلوںکی بہار لاتی ہے، وہیں اپنے ساتھ تباہی اور بربادی کی داستان بھی چھوڑ جاتی ہے،ز یادہ ہوتو سیلاب اوروبائی امراض کی شکل میں، کم ہوتو خشک سالی کی صورت میں،اوراگرمعتدل ہوتو رحمت بن کر، مگریہ انسانوںکی بد بختی ہے کہ وہ اس ابررحمت کا فائدہ اٹھانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔‘جب انسان خود غرض اور لالچی ہوجاتا ہے ،تو تباہی مقدر بن جاتی ہے ۔
آسمانی بجلی کا قہر بن ٹوٹ جانا ،بادل کا تباہی بن کر پھٹ جانا اور راحت وسکون بخشنے والی بارش کا سیلاب کی تباہ کاریوں کی صورت میں برسنا ،ایسی بنیادی وجوہات ہیں ،جو فطرت کیساتھ انسان کی بے جا مداخلت اور کار ستانی کو بیان کرتا ہے ۔
جنگلات کا کٹاﺅ ،آبی ذخائر پر کنکریٹ کی عمارات اور آب وہوا میں آلودگی کی بڑھتا رجحان ،موسمی تبدیلی کی وجوہات بن جاتی ہیں ۔
ماہرین کہتے ہیں ’موجود ہ دورمیں یہ عذاب الہٰی نہیں، بلکہ یہ عذاب موجودہ سسٹم اوراس کو قائم رکھے ہوئے ہمارے حکمراں طبقہ ہیں۔ کیونکہ بار بار بارش کی تباہی کے باوجود اس کے سد باب کے لیے کوئی موثر اقدامات اورمنظم و مکمل منصوبہ بندی کا نہ ہونا ،انتظامیہ ،حکومت اور سسٹم کا ناقص پن اور نااہلی ثابت کرتا ہے۔
ذرا غور کیجئے ! مون سون سیزن ہر سال آتا ہے اور ہر بارشیں ہرسال آتی ہیں، اور سیلاب بھی آتا ہے،لیکن صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت جموں وکشمیر کیساتھ ساتھ ملک میں جو سیلابی صورتحال ہے یا بارشیں ہو رہی ہیں‘ نہ یہ غیر معمولی ہیں اور نہ ہی انھیں ناگہانی آفات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
چونکہ اس وقت بارش کے سبب جو نقصانات ہو رہے ہیں، ان سے بہتر انتظامات کر کے بچا جا سکتا تھا۔
مگرالمیہ یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں کسی بھی حکومت نے اپنی ”بنیادی ذمہ داریوں“ پر توجہ ہی نہیں دی۔
ان کا سارا زور سیاسی جوڑ توڑ ، کرسی کا تحفظ، بدعنوانی کا فروغ اور بلند بانگ دعوﺅں کے ارد گرد مرکوزہوتا ہے۔
اسکا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں نہ تربیت یافتہ عملہ ہوتا ہے اور نہ ہی متعلقہ اداروں کے پاس اتنے وسائل کہ وہ فوری حرکت میں آتے ہوئے عام آدمی کو راحت پہنچا سکیں۔
ایسے میں موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ایک جامعہ پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے ۔