وادی کے لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرنے کی دوڑ لگا رہے ہیں ،کبھی کبھی یہ دوڑ صحت مند اور کبھی کبھار جان لیواثابت ہو رہی ہے ۔
مرحو م شیخ محمد عبد اللہ کے دور میں عام لوگ اُن کو ہی اپنا نجات دہندہ مان کر ”الہ کریہ وانگن کریہ بب کریہ لوں لوں “ کا نعرہ بلند کرتے تھے اور اُسکے خلاف بولنے والے کو شیطان کا بھائی تصور کررہے تھے ۔
پھر مسلم متحدہ محاز کا دور چلا اور شہر ودیہات میں صرف قلم ودوات کے جھنڈے دکھائی دینے لگے ۔یہاں تک کہ 1990ءکے وہ ایا م بھی آگئے جب ہرگھر میں آزادی کا نعرہ گونج رہا تھا اور جو بھی فہیم یا ذہین انسان نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھانے کی کوشش کرتا تھا، ہمارے لیڈر اور جوان اُنکو غدار اور مخبر کا خطاب دیتے تھے ۔
آج جب ہم دیکھتے ہیں ہر سو ترنگا لہرایا جاتا ہے، لوگ ایک سے ایک بڑھ کر ترنگا لہرانے کی کوشش کرتے ہیں، ہر گھر ترنگا ،ہر دفتر ترنگا ،ہر اسکول ترنگا نظر آرہا ہے ۔
آنے والے وقتوں میں کیا کچھ سامنے آئے گا کسی کو معلوم نہیں ،تاہم راہل کو جہلم کے کنارے کچھ بدلا بدلا سا نظر آرہا ہے، جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔





