ہر دور اور ہر زمانے میںقوموں کے ذمہ داروں نے ادیبوں ،قلمکاروں ،شاعروں اور صحافیو ں کی قدر کی ہے کیونکہ یہی ادیب قلمکار اور شاعر قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، جو وقت کے حکمرانوں کو آئینہ دکھا تے رہتے ہے ۔
سماج میں موجود خامیاں اور انتظامی امور میں موجود کمزورویوں کی نشاندہی اپنے قلم سے کرتے ہں جس پر وقت کے حکمران ،بادشاہ اور انتظامی افسران غور کرتے ہیں اور اسطرح قوم وملک کی ترقی یقینی بن جاتی ہے ۔
باریک بینی سے دیکھا جائے تو ایک قلمکار یا صحافی وادیب کی سوچ اور نظریہ مختلف ہوتا ہے مگر موجود ہ دور میں ایسے صحافی اور قلمکار بن گئے ہیں ،جو حقیقی معنوں میں نہ تین میں ہیں اور نہ تیرا میں۔۔۔۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ ذاتی مفادات حاصل کرنے کیلئے سرکاری باباﺅں یا حکمرانوں کے پاس ڈھیرہ ڈالتے نظر آتے ہیں ۔
وقت کے حکمرانوں کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ صحیح اور غلط میں فرق کر کے زیرک بننے کی کوشش کریں کیونکہ غلط مشوروں اور غلط سوچ کی وجہ سے وہ صحیح لوگوں کو سوچ نہیں لیتے ہیں اس طرح قوم وملت ملک ومعاومعاشرے کو بھاری نقصان ہوتا ہے ۔
جہلم کے کنارے یہی بات مشاہدے میں آرہی ہے ۔





