گزشتہ چند روز سے تیز بارشوں کی وجہ سے وادی میں سیلابی صورتحال پیدا ہو چکی ہے ۔شہر ودیہات میں گلی کوچے اور لوگوں کے صحن زیر آب آچکے ہیں ۔
گزشتہ شام شہر سرینگر میں تیز بارشوں کے بعد جس طرح کی سیلابی صورتحال دیکھنے کو ملی ہے وہ انتظامیہ کیلئے چشم کشا ہے ۔
پورا ڈرنیج سسٹم ناکارہ ہو گیا اور ٹریفک کی آمد ورفت میں خلل پڑا جبکہ پیدل چلنا پھرنا بھی محال بن گیا ۔
وادی کے سرینگر کے علاوہ جموں شہر میں بھی یہی حال نظر آرہا تھا ۔سڑکوں پر سے اس قدر پانی تیز رفتاری کےساتھ بہہ رہا تھا گویا دریا بہہ رہا ہے ۔
ہر سال جموں وکشمیر انتظامیہ ڈرنیج سسٹم کی دیکھ ریکھ اور اسکی بہتری کیلئے کروڑوں روپے صرف کر رہی ہے لیکن پھر بھی یہ معاملہ برف وباراں کے دوران جوں کا توں نظر آتا ہے ۔
اگر ہم شہر سرینگر کے ارد گرد علاقوں لال بازار ،بمنہ ،خانیار ،صفاکدل ،علی جان روڑ عید گاہ ،مہجور نگر اور راجباغ کا سرسری جائزہ لیں، تو یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ گرمیوں میں بھی ان علاقوں میں اسی طرح کی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے جو کہ باعث تشویش اور مایوس کن ہے ۔
اس ناقص ڈرنیج سسٹم کیلئے افسران یا ٹھیکہ دار ان ذمہ دار ہیں یا پھر عام لوگ ،اس پر بات کرنے سے معاملہ طول پکڑ جائےگا لیکن ایک بات صاف وعیا ں ہے کہ اس شہر کے منصوبہ ساز ہمیشہ غیر ذمہ داری برتتے ہیں ،وہ کوئی بھی منصوبہ ہاتھ میں لیتے وقت مختصر وقت کیلئے منصوبہ ہاتھ میں لیتے ہیں نہ کہ آئندہ 50برسوں کیلئے منصوبہ عملاتے ہیں جو کہ تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔
ان افسران کو چنڈی گڑھ شہر کے ٹاﺅن پلانر نیک چند سے سبق حاصل کرنا چاہیے،جنہوں نے چندی گڑھ شہر کو تعمیر کرتے وقت آنے والے 100برسوں کو مدنظر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریفک دباﺅ کے باوجود یہاں ٹریفک جام نظر نہیں آتا ہے نہ ہی بارشوں کے دوران سیلابی کیفیت نظر آتی ہے ۔
سمارٹ سٹی پروجیکٹ سے منسلک ذمہ داروں اور حکام کو چاہیے کہ وہ اس پروجیکٹ کو پائے تکمیل تک پہنچانے سے قبل تمام زاﺅیوں سے دیکھ لیں تاکہ بار بار اس طرح کی صورتحال سے عام لوگوں کو نجات مل جائے ،جو کل دیکھنے کو ملا ہے ۔





