جمعرات, نومبر ۲۰, ۲۰۲۵
8.1 C
Srinagar

ریٹائرڈ بیورو کریٹس پر مہربانیاں کیوں ؟

شوکت ساحل

ہم یہ بات بہت پہلے آپ تک پہنچا چکے ہیں کہ ’بیورو کریسی ‘دراصل فرانسیسی نژاد لفظ ہے اور اس طنز آمیز لفظ کا اطلاق ایسی عاملہ یا انتظامیہ پر ہوتا ہے، جس کا کام ضابطہ پرستی کے باعث طوالت آمیز ہو۔

اس اصطلاح کو 18ویں صدی میں فرانس میں وضع کیا گیا جب کہ بعض افراد نوابی خطابات دے کر انہیںسرکاری عہدوں پر فائز کر دیا گیا تھا۔ نپولین کے دور حکومت میں سرکاری محکموں کو بیورو کہا جاتا تھا اور سرکاری عہدے داروں کو بیوروکریٹ۔اس قسم کے نظام حکومت کے ناقدین کی رائے ہے کہ اس نظام سے کام میں طوالت، تنگ نظری اور عدم توجہ پیدا ہوتی ہے۔

مگر اس طریقہ کار کے حمایتی کہتے ہیں کہ اس سے فرض، باضابطہ پن، تسلسل کار اور اخلاق ٹپکتا ہے۔

ان مکاتب فکر کے علاوہ ایک نظریہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جدید ریاستوں میں جہاں آئے دن حکومتیں پیچیدہ منصوبے تیار کرتی رہتی ہیں، وہاں ضابطہ پرست عاملہ کا قوت حاصل کر جانا ناگزیر ہے۔

اردو میں اسے نوکر شاہی بھی کہتے ہیں۔بہر حال آج کا ہمارا موضوع کچھ مختلف ہے ،عنوان سے آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ آج کی ہماری بات کس زاویے میںہے ۔

ریٹارڈ بیوروکریٹس پر سرکاری مہربانیاں کیوں ہوتی ہیں ؟ جب بھی بیوروکریٹ ریٹارڈ ہوجاتے ہیں ،تو بیشتر کو کسی نہ کسی سرکاری محکمہ کا سربراہ یا بڑے عہدے پر فائز کرکے خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ؟کیا وہ اتنے ذہین اور باصلاحیت ہوتے ہیں کہ اُنکی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا ؟اس سوال کاجواب یقینا ہماری نظر میں نہیں ہے ،کیوں کہ اُنکی جگہیں جب بھی خالی ہوجاتی ہیں ؟تو اُنہیں اُسی انداز میں پُر کیا جاتا ہے ؟جو ہماری ملک اور اس جموں وکشمیر کی روایت رہی ہے اور اب بھی قائم ہے ۔سوال یہ بھی ہے کیا یہ ضروری عمل ہے ؟جو ہونا ناگزیر ہے ۔یا پھر اُنہیں وقت کے حکمران اپنی من مرضی کے مطابق ہتھیار کے بطور استعمال کرتے ہیں ؟،ویسے بھی حکمران اپنی مرضی کے ہی بیورکرو یٹ چاہتے ہیں ،تاکہ وہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرسکیں ،جو وہ چاہتے ہیں ۔

اس ضمن میں کوئی بھی ایک مثال پیش کی جاسکتی ہے ،لیکن ہم کسی ایک فرد ِشخص پر الزام یا اُسکی نشاندہی کرکے ذاتی طور پرہدف تنقید نہیں بنانا چاہتے ہیں ،تاہم اگر موجودہ بیورکریسی نظام کو پارٹی بیوروکریسی کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی ۔

ایسا صرف ملک ِ ہندوستان یا جموں وکشمیر میں ہی نہیں ہوتا بلکہ برصغیر کے کم وبیش تمام ممالک میں اسی طرح کی صور ت ِ حال دیکھنے کو ملتی ہے ۔

علم کی کمی وجہ سے یورپ اور مغرب میں اس حوالے سے کیا صورت حال ہے ،ہم زبانی بیان نہیں کرسکتے ہیں ۔

تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل سرکاری ملازم کو ریٹائرمنٹ پر اتنے پیسے مل جاتے تھے کہ جن سے وہ اپنے رہنے کے لئے چھوٹا موٹا گھر بنا لیتا تھا، ایک دو بچوں کی شادی ہو جاتی تھی۔ کئی خوش قسمت تو ان پیسوں سے حج یا عمرہ بھی کر لیتے تھے لیکن بدلتی سرکاری پالیسی میں اب ایسا ممکن نہیں ۔

تاہم اُن بیورکریٹس کے لئے نیلا آسمان اب بھی کھلا ہی ہے ،جو وقت کے حکمران کے لئے مہربان بن جاتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے وقت وہ حکمران اُنکے مہربان ۔۔۔ بدلتی دنیا اورتبدیلی کی ہوا میں کیا یہ روش اور روایت ختم ہوگی یا نہیں ؟۔تاہم ذہین ،قابل اور باصلاحیت نوجوان نسل کو بیوروکریسی میں بھی آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے ،جن کی خدمات حاصل کرنا تعمیر وترقی ،امن اور خوشحالی کے لئے ناگزیر ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img