ہفتہ, اگست ۲۳, ۲۰۲۵
20 C
Srinagar

کرپشن، سفارش اور بدعنوانی۔۔۔۔

شوکت ساحل

انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی ) نے کشمیر کرکٹ ایسوسی ایشن (جے اینڈ کے سی اے) میں فنڈز کے مبینہ بے ضابطگیوںسے متعلق کیس میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے صدر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے خلاف ایک اضافی چارج شیٹ دائر کی ہے ۔

ڈاکٹر فاروق عبداللہ الزام ہے کہ کشمیر کرکٹ ایسوسی ایشن (جے اینڈ کے سی اے) کے صدر عہدے کے دوران انہوں نے 113کروڑ روپے کا غبن کیا ۔معاملہ عدالت میں لہٰذا فی الوقت اس پر مزید رائے زنی نہیں کی جاسکتی ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کرپشن اور رشوت ستانی ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نیچے سے لے کر بڑے تک سب ہی کہیں نہ کہیں اس میں شامل ہیں ،غرض یہ کہ کلرک سے لے کر افسر تک سب اس میں اپنا اپنا حصہ ڈال رے ہوتے ہیں ۔

کرپشن ،رشوت یہ وہ بیماریاں ہیں جو دیمک کے طرح ہمارے ملک کی بنیادوں کو کھا رہی ہیں اور انہیں کھوکھلا کر رہی ہیں۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اب بھی ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ،جنہوں نے اس لعنت کو نہیں اپنا اور ملک ہندوستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں، یہ لوگ قابل تحسین ہیں مگر وہ لوگ جنہوںنے کرپشن کی رشوت لی بدعنوانیاں اور بے ضابط گیاں کیں ان کے لیے سخت سے سخت قانون بنایا جائے تا کہ کرپشن اور رشوت جیسے ناسور کو ہمارے معاشرے سے ختم کیا جا سکے۔

ہندوستان کیساتھ ساتھ جموں وکشمیر کی بہتری اور ترقی کے لیے اس اقدام کی بہت ضرورت ہے۔رشوت لینے کے کئی طور طریقے ہیں ،کبھی تو چائے پانی کے نام پر اور کبھی یہ کہہ کر کہ جی کام کروانے میں توڑا بہت تو خرچہ کرنا پڑتا۔وہ لوگ جو اداروں میں ب بیٹھتے ہی لوگوں کی خدمت کے لیے ہیں اور اس کام کی وہ تنخواہ لے رہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی لوگوں سے رشوت کا مطالبہ کرتے یا تو کہتے کہ کوئی جان پہچان والا ہے تو سفارش کروا لو! اس طرح تمہارا کام جلدی ہو جائے گا ورنہ پیسے دو گے، تو ہم یہ کریں گے ورنہ یونہی تمہارا کام لٹکا رہے گا اور ہر روز دفتر کے چکر لگانے پڑیں گے۔

اگر ہم میں سے ہر شہری ایمانداری سے اپنا کام سر انجام دے تو میرے خیال سے ہر کام وقت پر ہو گا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ،مگر خود کو افسر کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا کام قوم کی خدمت ہے ۔

بروقت اپنے فرائض سر انجام دینا ہے نہ کہ رشوت اور سفارش کی وجہ سے لٹکا دینا اور دوسروں کو ذہنی ازیت دینا،صرف سفارش کی بناءپر کسی دوسرے کا جائز حق کسی اور کو دے دیا جاتا ہے اور اس طرح میرٹ کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں اور لوگوں کا محنت پر سے یقین اٹھ جاتا ہے اور ایک نااہل دوسرے کے جائز حق پر قابض ہو جاتا ہے۔

اس طرح معاشرے میں ایک بے یقینی کی فضاءپیدا ہوتی ہے اور مختلف سماجی اور معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں۔غرض یہ کہ کرپشن، سفارش اور بدعنوانی اب ہمارے معاشرے کا کلچر بن چکی ہے کوئی اس پر شرمندگی محسوس ہی نہیں کرتا بلکہ دلائل دیے جاتے ہیں کہ آج کہ دورمیں تو صرف سفارش ہی چلتی ہے اور اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا اور اگر تمہارے پاس کوئی سفارش نہیں تو تم خالی ہاتھ ملتے ہی رہ جاﺅ گے یعنی ایک تو چوری اور اوپر سے سینہ زوری۔

حکومت کو اس چوری اور سینہ زوری کی سوچ ،روش اور رویہ کا قلع قمع کرنے کے لئے سنجیدگی کیساتھ ساتھ نہ صرف سوچنا چاہیے ،سخت قوانین کے تحت عبرتناک سزائیں دینی چاہیے ۔سزائیں دینے سے اس ناسور پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔کمیٹیا ں تشکیل دے کر سفارشات کو ردی کی ٹوکری کرنے سے نہ تو کورپشن کا خاتمہ ممکن ہے اور ناہی ایمانداری کی سوچ پروان چڑھ پائے گی ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img