جموں وکشمیرکی جہاں گذشتہ 3برسوں سے مسلسل انتظامی لگام مرکزی سرکار کے ہاتھوں میں ہے ، میںمختلف سطحوں پر نمایاں تبدیلی آچکی ہے ۔
وہیںتعمیر وترقی ہونے کے ساتھ ساتھ رشوت ستانی کے گراف میں نمایاں کمی آچکی ہے ۔ سیاحتی شعبے میں جوترقی ہوئی ہے اُسکی بدولت جموں وکشمیرخاصکر وادی کے لوگوں میں نئی اُمیدیں پیدا ہونے لگی ہیں۔
ہر انسان دہائیوں کے بعد خوش وخرم نظر آرہا ہے اور اسطرح امن قائم ہو چکا ہے ۔اِدھر انتخابی کمیشن کےساتھ ساتھ مختلف سیاسی جماعتیں بھی سرگرم ہونے لگی ہےں اور وہ عوامی حلقوں میں جا کر اپنی بات رکھنے کی بھرپور کوشش کررہی ہیں مگر مشاہدے میں یہ بات آرہی ہے کہ عام لوگ اس حوالے سے زیاد ہ سرگرم نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں یا ان سے وابستہ لیڈران نے جو گذشتہ 3دہائیوں کے دوران عوام کے سامنے اپنی پہچان بنائی ہے، اُسے لوگ مایوس ہیں ۔
یہاں یہ بات کہنا بھی بے حد ضروری ہے کہ اس وقت بھی سینکڑوں نوجوان اور سیاسی ورکران جیلوں میں مقید ہیں، جن کے ہمدرد یا رشتہ دار ہزاروں کی تعداد میں ہیں، جو حکمرانوں کے ان اقدامات سے ہرگز خوش نہیں ہیں۔
یہ دوسری بات ہے کہ وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کر رہے ہیں تاہم بنیادی سطح پر اُن کی ناراضگی صاف وعیاں ہے ۔کوئی مانے یا نہ مانے ایسے ہزاروں لوگ انتخابی دنگل میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں ۔
مرکزی حکومت اور ایل جی انتظامیہ کو ایسے افراد کو انتخابی سیاست میں شامل کرنے میں اپنی زور آزمائی انتخابات سے قبل کرنی چاہیے ۔
ایسے لوگوں کی رہائی عمل میں لانی چاہیے جو صرف سیاسی الگ نظر یہ رکھنے کی پاداش میں یاتو بند ہے یا پھر جیلوں میں مقید ہیں ۔
ایسے سیاستدانوں یا ورکروں کو اعتماد میں لینے سے انتخابی عمل زیادہ دلچسپ بن سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمولیت بھی یقینی بن سکتی ہے جو کہ ایک جمہوری نظام کا طرہ امتیاز ہوتا ہے ۔
کہا جا رہا ہے کہ عالمی سطح پر نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ان تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت کو ایک نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ حقیقی معنوں میں امن اور خوشحالی بحال ہو جائے جس کی سیاستدانوں ،پالیسی سازوں اور ماہرین سیاسیا ت کو برسوں سے تلاش ہے ۔
یہ صحیح موقعہ ہے ایسے لوگوں کو تیار کیا جائے جو انتخابی دھاندلیوں اور جمہوری حقوق طلب ہونے کی وجہ سے اب تک ناراض دکھائی دے رہے ہیں ۔