منگل, اگست ۱۲, ۲۰۲۵
29.5 C
Srinagar

اسمبلی انتخابات،’پُر اعتماد!‘ جموں وکشمیر کی سیاسی جماعتیں اسمبلی انتخابات کی خواہاں

 علاقائی سیاسی پارٹیوں نے ’پہلے داخلی سطح پر دہلی اور کشمیری لیڈرشپ کے درمیان اور پھر خارجی سطح پر مذاکرات پر زور دیا

سرینگر/ نئی دہلی جموں وکشمیر کی سیاسی پارٹیاں اسمبلی انتخابات کی خواہاں ہیں جبکہ علاقائی سیاسی پارٹیوں نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے دہلی اور کشمیری لیڈر شپ کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے اور اس کے فوراً بعد خارجی سطح کا مکالمہ بھی ہونا چاہیے ۔جموں و کشمیر(یوٹی) میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے جاری تیاریوں کی طرف اشارہ کرنے والی خبریں موصول ہو رہی ہیں، مقامی سیاسی رہنما دفعہ370 اور آرٹیکل 35( اے) کی منسوخی اوراز سر نو حلقوں کی حد بندی کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں ابھی تک غیر یقینی صورتحا ل کا شکارہیں۔تاہم، مقامی سیاسی رہنماو¿ں کی رائے ہے کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرنے سے اسمبلی انتخابات سے قبل خطے کے لوگوں کو راحت مل سکتی ہے۔خطے کے حالیہ دورے میں ’میں نے کچھ کشمیری مسلم رہنماو¿ں سے ملاقات کی۔ اعتدال پسند حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے مجھے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا’کشمیر پر قومی اتفاق رائے قائم کی جانی چاہئے کیونکہ کشمیر کو دہلی کے قریب لانے کی بجائے دور کرنے سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کیا گیا ہے۔‘انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیری قیادت اور دہلی کے درمیان پہلے اندرونی سطح پر بات چیت ہونی چاہیے، اس کے بعد خارجی سطح پر مکالمہ ہونا چاہیے، جہاں تک کشمیر میں پاکستان کی مداخلت کا تعلق ہے‘۔

سی پی ایم لیڈر، محمد یوسف تاریگامی، جو پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کے کنوینر اور ترجمان بھی ہیں، نے سوالیہ انداز میں بتایا’اگر لوکل باڈیز، پنچایتی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں، تو اسمبلی انتخابات کیوں نہیں؟ انتخابات زیادہ قابل ِ اعتبار ہوں گے ،اگر پارلیمنٹ میں کئے گئے وعدے کے مطابق ریاستی درجہ بحال کیا جاتاہے لیکن حلقہ بندیوں کے بعد اب انتخابات میں تاخیر کا کوئی بہانہ نہیں بچا ہے۔‘19جولائی،2022 کومرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ ،نتیانند رائے نے ایک تحریری جواب میں لوک سبھا کو مطلع کیا کہ جموں و کشمیر میں انتخابات کا اعلان ہونے سے پہلے انتخابی فہرستوں کی نظرثانی کو ختم کرنا ہوگا۔انہوں نے یہ بھی کہا،’حکومت نے حد بندی کمیشن تشکیل دیا، جس نے 14 مارچ2022 اور5 مئی2022 کو یونین ٹیریٹری کے پارلیمانی اور قانون ساز اسمبلی کے حلقوں کی حد بندی سے متعلق احکامات پر عمل درآمد کیا۔ اس کے بعد، الیکشن کمیشن نے انتخابی فہرستوں کی نظرثانی شروع کی ہے۔‘

تاریگامی نے الزام لگایا،’کل جماعتی میٹنگ میں دہلی اور سری نگر کے درمیان فاصلے کو کم کرنے اور دلوں کو قریب کرنے کی یقین دہانی کے باوجود کچھ بھی نہیں ہوا۔ مرکز اور ریاست کے درمیان فاصلے بڑھانے کی پالیسی نے انتہا پسندوں کو تشدد کو بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان شدت پسندوں کی حمایت جاری رکھے کیونکہ انہیں اپنے گھریلو اتار چڑھاو¿ کی صورتحال سے توجہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔‘تاریگامی کے ریمارکس کی حمایت کرتے ہوئے، میرواعظ نے بھی یہ ذکر کیا کہ دہلی اور کشمیر کے درمیان عدم اعتماد کم نہیں ہوا ہے، جس کے نتیجے میں بھارت کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے، موجودہ حالات میں نوجوانوں کی ذہنیت ہندوتوا بمقابلہ اسلام بیانیہ سے متاثر ہے۔‘2019سے، میرواعظ کو گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے اور انہیں مرکزی جامع مسجد سرینگر میں جمعہ کی نماز سے خطاب کرنے سے روک دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا ’ میری جمعہ نماز میں عدم موجودگی نے عام لوگوں کو ریلیف دینے کی بجائے اورزیادہ عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہے۔ایک مذہبی پلیٹ فارم سے جمعہ کے دن میرے خطبات نے یقیناً نوجوانوں کو متاثر کیا ہوتا، خاص طور پر جو منشیات کا شکار ہیں اور انہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق تشدد کے بعد ہونے والے نتائج کے بارے میں آگاہ کیا ہوتا۔‘


میرواعظ نے خبردار کیا کہ کشمیر میں ایک اور تشویشناک صورتحال منشیات کی درآمد ہے،نوجوانوں میں نشے کی لت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی ڈپریشن(نفسیاتی دباﺅ) کی گرفت میں ہیں اور آسانی سے اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘مرکزی علاقائی پارٹی نیشنل کانفرنس نے پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن ( پی اے جی ڈی) کی چھتری تلے جموں و کشمیر(یوٹی) کے پہلے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنے موزے کھینچ لیے ہیںیا لنگر لنگوٹے کس لئے ہیں ،جس میں محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ( پی ڈی پی) اور دیگر چھوٹی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔انتخابات میں’ پی اے جی ڈی‘ کا سیاسی ایجنڈا جموں و کشمیر کو قانونی اور آئینی طور پر خصوصی حیثیت کی بحالی ہے۔2020میں’ پی اے جی ڈی‘ نے متحدہ طور پر280 میں سے 110 سیٹیں جیت کر پہلی ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل (ڈی ڈی سی) کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، جب کہ بی جے پی75 سیٹیں حاصل کرکے واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔جموں و کشمیر میں ابھرتے ہوئے سیاسی منظر نامے کو بیان کرتے ہوئے، نیشنل کانفرنس کے ترجمان اعلیٰ، تنویر صادق نے دعویٰ کیا کہ جب بھی انتخابات ہوں گے، پی اے جی ڈی کو جموں خطہ کے پیر پنجال اور چناب وادی میں بھی زبردست حمایت حاصل ہوگیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی ذاتی مفادات کو دور رکھنے اور صرف بڑے سیاسی مقصد پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے الیکشن نہیں لڑیں گے۔انہوں نے الزام لگایا کہ جموں خطہ میںپڑوسی ریاستوں نے5 اگست 2019 کے بعد کاروبار پر قبضہ کر لیا۔ تنویر صادق نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ عام آدمی پارٹی، کانگریس ، ناراض لیڈروں اور منقسم ہندو رائے دہی کی وجہ سے جموں خطے میں بی جے پی کی تعداد کم ہو سکتی ہے۔تنویر صادق نے کہا ’گورنر راج جمہوری طور پر منتخب حکومت کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ گورنر راج کے طویل عرصے سے عوام کو ریلیف نہیں ملا ہے، بلکہ بیگانگی میں اضافہ ہوا ہے۔1990 کے بعد سے سول انتظامیہ اور سیاسی راہنماﺅں یا عوام کے درمیان رابطے کی کمی کی وجہ سے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔تنویر صادق نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بیانیہ کی جنگ جاری ہے،’اگر پی اے جی ڈی اقتدار میں آتی ہے تو جمہوری طریقے سے ریاست کو خصوصی حیثیت کی بحالی کی قرارداد منظور کی جائے گی اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے سامنے پیش کی جائے گی کیونکہ اس سے ہمارے کیس کو مزید تقویت ملے گی۔‘(آر سی گنجو ایک سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں، جن کے پاس قومی سلامتی بالخصوص کشمیر سے متعلق مسائل کو کور کرنے کا 30 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔انہوں نے کئی ممتاز میڈیا گروپس کے ساتھ کام کیا ہے اور ان کے مضامین کئی قومی اور بین الاقوامی اشاعت میں شائع ہو چکے ہیں۔)دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ آراءمصنف کی ذاتی رائے ہیں۔ مضمون میں ظاہر ہونے والے حقائق اور آراءون انڈیا کیساتھ ساتھ ایشین میل کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے ہیں اور ون انڈیا کیساتھ ساتھ ایشین میل بھی اس کے لیے کوئی ذمہ داری یا ذمہ داری قبول نہیں کرتا ہے۔

بشکریہ :وَن انڈیا آر سی گنجو

Popular Categories

spot_imgspot_img