شوکت ساحل
دریا ئے جہلم خاموشی کیساتھ بہہ رہا ہے ،لیکن جب کوئی اس کا سینہ چیر کر اس کے قلب کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سونے کی کوشش کرتا ہے ،تو پانی سرخ، لہریں افسر دہ اور فضا ءغمناک ہو جاتی ہے ۔26جون 2021کوایک ویڈیو ریکارڈ کرنے کے بعد سرحدی ضلع کپوارہ سے تعلق رکھنے والے 17سالہ نوجوان نے جب دریائے جہلم کی پانیوں کی گہرائیوں میں خود کو گم کیا ،تو سوچ اور خیال کا ٹکراﺅ ہوا ۔
اسی طرح گزشتہ برس مرکزکے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع کولگام کے ایک د±ور افتادہ گاﺅں میں رہنے والے یونیورسٹی طالب علم نے موت کو گلے لگایا ،تو کشمیر ی نوجوان نسل کی آگے بڑھنے کی رفتار ہی تھم گئی ۔رواں ماہ کی15تاریخ کو گرمائی دارالحکومت سرینگر کے مشرق میں واقع مضافاتی علاقہ ہارون میں جب کم عمر نوجوان نے خود کو موت کے تختہ دار پر چڑھانے کی کوشش تو اسی علاقے میں چند میٹر کی دوری پر اس خبر کے پھیلتے ہی ایک دوشیزہ نے زندگی کا خاتمہ کیا ۔دونوں کی عمریں 17سال زیادہ نہیں تھیں ۔
خود کشی کے واقعات یوں تو سبھی علاقوں میں رونما ہوئے ،تاہم سرینگر میں آئے روز کوئی نہ کوئی نوجوان لڑکا یا لڑکی دریا میں ک±ود جاتے تھے۔گزشتہ برس سوشل میڈیا پرایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں ایک خاتون لال چوک میں پ±ل کے اوپر سے دریائے جہلم میں کودنا چاہتی تھیں لیکن موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔شہر خاص کے ایک نوجوان ڈاکٹر کو اپنے کمرے میں پنکھے سے لٹکا ہوا پایا گیا اور کئی نوجوانوں کی لاشیں مختلف دریاﺅں سے برآمد کی گئیں۔
خود کشی سے بچاﺅ کا عالمی دن
10ستمبر کو پوری دنیا میں خود کشی سے بچاﺅ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا بنیادی مقصد خود کشی کی رفتار کو روکناہے ،کیوں کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں ہر40 سیکنڈز کے بعد ایک شخص خودکشی کر لیتا ہے جبکہ خودکشی سے ہر سال ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اس عرصے میں جنگوں میں مرنے والوں سے زیادہ ہے۔لیکن شاید ہی کوئی کشمیر میں اس دن کی اہمیت وافادیت کے بارے میں علمیت رکھتا ہو ۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خودکشی ایک ایسا عالمی مسئلہ ہے جس سے ہر عمر، جنس اور ہر خطے کے لوگ متاثر ہیں،لیکن کشمیرمیں خود کشی کی لاتعداد وجوہات ہیں ۔کوئی کشمیر کو شورش زدہ ،کوئی جنگ زدہ ،کوئی ملی ٹنسی زدہ ،کوئی جنت الفردوس تو کو ئی جہنم زار قرار دے رہا ہے ۔تین دہائیوں سے جاری نامساعد حالات کے بھنور نے اب تک ہزاروں زندگیوں کو نگل لیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔
کشمیر میں خود کشی کی شرح
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو ( این سی آر بی ) نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ سال2020میں جموں وکشمیر میں 287خود کشیوں کے واقعات ریکارڈ کیے گئے ۔اعداد وشمار کے مطابق 287واقعات میںسے157مردوںاور130خواتین نے زندگی کا خاتمہ کیا ۔رپورٹ کے مطابق صرف ضلع سرینگر میںخود کشی کی شرح میں200فیصد اضافہ ہوا ہے۔سال2019میں یہاں خود کشی کے 2کیس ریکارڈ کئے گئے جبکہ سال2020میں یہ تعداد 6تھی ۔
این سی آر بی کے اعداد وشمار کے مطابق جموں وکشمیر میں29خود کشیوں کے واقعات کی وجوہات شاد ی سے متعلق مسائل جبکہ14کیسز کی وجہ شادی طے نہ ہونا تھا ۔سات کیسوں کی وجہ جہیز سے متعلق مسائل اور 8کیسوں کی وجہ غیر ازدواجی تعلقات تھی جبکہ 15کیسوں میں امتحانات میںناکامی کی وجہ پائی گئی ۔ اس کے علاوہ بیماری ،گھریلو تنازعات اور نفسیاتی دباﺅ بھی خود کشی کی بنیادی وجوہات ہیں ۔
طبی ماہرین ِ نفسیات کیا کہتے ہیں ؟
وادی کے طبی ماہرین ِ نفسیات کواس میں کوئی شک نہیں کہ تین دہائیوں کے نامساعد حالات ،معاشی بدحالی اور بے روزگاری کے سنگین مسئلے نے مقامی لوگوں کو افسردہ، تنہا، صدمے کا شکار اور ٹوٹا ہوا چھوڑ دیا ہے۔وادی کشمیرکی ایک لاکھ آبادی میں 80کی دہائی میں نوجوانوں میں خود کشی کی شرح 5فیصد ریکارڈ کی گئی تھی ،جو اب بڑھ کر 13فیصد ہوچکی ہے ۔
گزشتہ تین برسوں کے دوران وادی کشمیر میں خود کشی کی شر ح میں تشویشناک اور ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔سوشل میڈیا پر خود کشیوں کے دل دہلانے والے ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد وادی کے ماہرین ِ نفسیات نے خود کشی سے بچاﺅ کے لئے مہم شروع کی ہے ۔ طبی ماہر ِنفسیات، ڈاکٹرزویا میرکہتی ہیں ’ہم اُن افراد تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں ،جنہیں خود کشی کرنے کا خیال آتا ہے ‘۔
زندگی ہیلپ لائن :مایوسی میں امید کی کرن
کشمیر کی پہلی خودکشی کی روک تھام کی ہیلپ لائن نے کام کرنا شروع کر دیا ہے، ماہرین ِنفسیات کو امید ہے کہ اس اقدام سے ان لوگوں کی زندگیاں بچانے میں مدد ملے گی جنہیں اپنی زندگی کے انتہائی نازک وقت میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ ہیلپ لائن ایک غیر سرکاری آرگنائزیشن ’ایس آر او کشمیر ‘ یعنی ”سوشل ریفارمز آرگنائزیشن کشمیر “نے ایک پہل کے تحت شروع کی ہے ۔19مئی2022کو ’زندگی ‘کے نام سے شروع کی گئی ہیلپ لائن نمبر(18002701008)مایوسی میں امید کی ایک کرن کے مترادف ہے ۔
ایس آر او کشمیر کے ڈائریکٹر، محمد آفا ق سید کہتے ہیں کہ یہ ہیلپ لائن انسٹی چیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز کشمیر میں تعینات طبی ماہر ین ِ نفسیات کے تعاﺅن سے کام کررہی ہے ۔کوئی بھی شخص ،جس کو خود کشی کا خیال آتا ہے ہر روز شام 6بجے سے رات11بجے تک اس ہیلپ لائن نمبر کے ذریعے ماہرین ِ نفسیات سے رابطہ قائم کرکے خدمات حاصل کرسکتے ہیں ۔

ان کا کہنا ہے کہ اس ہیلپ لائن نمبر پر گزشتہ دو ماہ کے دوران 500سے زیادہ فون کالز موصول ہوئی ہیں جن میں سے 125کالز ایسے افراد کی جانب سے موصول ہوئیں ،جنہیں خود کشی کا خیال آیا۔یہ پوچھے جانے پر کہ کس عمر کے لوگ زیادہ تر اس ہیلپ لائن پر مدد مانگتے ہیں ؟کے سوال کے جواب میں محمد آفاق کہتے ہیں ،یہاں ہم نے دیکھا کہ ہر عمر کے لوگ فون کرتے ہیں ،آپ کو حیرت ہوگی کہ ایک بزرگ جوڑے نے بھی ہمیں فون کیا ،جنہیں خود کشی کا خیال آیا تھا ،ہم نے کونسلنگ کرکے اُن کی مدد کی ۔اس ہیلپ لائن کیساتھ21ممبران پر مشتمل ایک ٹیم جڑی ہوئی ہے،جس میں تربیت یافتہ رضاکار اور ماہرین ِ نفسیات شامل ہیں۔
ذہنی امراض کے لیے وادی کے واحد ہسپتال ”انسٹی چیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز کشمیر “ میں تعینات طبی ماہر ِنفسیات، ڈاکٹرزویا میر کہتی ہیں کہ’خود کشی کا خیال آنا ایک بیماری ہے ،جس کا علاج ممکن ہے‘۔ کشمیر ی سماج میں زندگی ہیلپ لائن کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اور اسکی ضرورت کتنی ہے ؟ ڈاکٹر زویا میرکہتی ہیں ’ہم اُن افراد تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں ،جنہیں خود کشی کرنے کا خیال آتا ہے ‘۔

ڈاکٹر زویا میرنے مزید بتایا کہ خودکشیاں صد فیصد روکی جا سکتی ہیں اور’ہمیں کسی شخص کی بقا کی جبلت پر نظر رکھنی ہوگی۔‘انہوں نے کہا کہ وہ خودکشی سے بچاو¿ کی اس ہیلپ لائن کو شروع کرنے کے لیے مہینوں سے منصوبہ بنا رہے تھے اور ہیلپ لائن میں شامل تمام طبی ماہر نفسیات اور ماہر نفسیات کو ممبئی کے ماہرین سے خودکشی سے بچاو¿ کے کورسز میں تربیت دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں روزانہ تقریباً 10سے15 فون کالز موصول ہو رہی ہیں اور کم ازکم آدھے گھنٹے تک وہ ایک متاثرہ شخص سے گفت شنید کرتے ہیں ،تاکہ اگر اُسے خودکشی کا خیال آتا ہے ،تو اُسے روکا جاسکے، کیوں کہ زندگی ایک انمول تحفہ ہے۔ایک سوال کے جواب میں(سائیکالوجی اینڈ کونسلنگ) میں گولڈ میڈلسٹ،ڈاکٹر زویا میرمیں کہتی ہیں ،’اس خاموش وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے ،نفسیاتی دباﺅ کو عام بیماری کی طرح علاج کی ضرورت ہے ۔
‘
گوگہ مسلم اکثرتی کشمیر میں خود کشی کو حرام سمجھا جاتا ہے ،تاہم اس کے باوجود خود کشی کا بڑھتا رجحان ایک تشویشناک امر ہے ۔’ماہرین ِ نفسیات کہتے ہیں ’ والدین اپنے بچوں کے دوست بنیں، کبھی کبھی بچے اندر ہی اندر تناﺅمیں ہوتے ہیں اور جب ان سے بات نہ کی جائے تو وہ بے بس ہو کر خودکشی کر بیٹھتے ہیں۔‘





