تحریر:شوکت ساحل
انا پرستی اور خود پسندی ایک ایسی بیماری کا نام ہے ،جس کا مقصد اپنی ہی ذات کے گرد گھومنا ہے ۔
ایسے لوگ اپنی غلط دلیلوں اور جھوٹی باتوں سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جو کررہے ہیں وہ ہی عمل درست ہے اور باقی سب غلط ہے ۔
اَنا پرستی ہی کی وجہ سے انسان منافق، جھوٹا اور غیر شفاف ہے۔ آج جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو اس عفریت نے ہر دوسرے شخص کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔
اَنا اس زہر کی مانند ہے، جو انسان کو تباہ وبرباد کر دیتا ہے، جب تک انسان میں اَنا نہیں ہوتی وہ سکون سے رہتا ہے، لیکن جیسے ہی اس میں اَنا آجاتی ہے، اس کا سکون محال ہو جاتا ہے، اَنا پرست لوگ اپنی’میں‘ میں مبتلا آگے بڑھتے ہوئے نہ جانے کتنے دلوں کو اپنے تلخ جملوں سے زخمی کر چکے ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس اَنا پستی کے مرض کا کمینگی کی حد تک اسیر ہو چکا ہے، یہاں دو گز زمین پر قتل ،بیٹوں کے ہاتھوں والد کا قتل،ہمسایہ کے ہاتھوں معصوم کا قتل،خود کشیاں،پُراسرار اموات اوردیگر متعد واقعات پر جان کا خاتمہ۔ ہم نے اپنی اقدار اور اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا ہے اور ہمیں اس کا ادراک تک نہیں جو کہ زیادہ ہولناک ہے۔لفظ’ مَیں‘ اور ’اَنا ‘ہر شخص میں رچ بس چکا ہے۔چاہے وہ چھوٹا ہے ،بڑا ہے، بوڑھا ہے، غریب ہے ،امیر ہے ،سیاستدان ہے، حکمران ہے ،مذہبی اسکالر ہے ،صحافی ہے، پولیس آفیسر ہے ،مالک ہے یا ملازم کوئی شرط نہیں۔سب ’ میں ‘اور ’اَنا‘ کے مرض میں مبتلا ہیں۔
ہم سب نے ایک غرور پال رکھا ہے کہ کرہ ارض پر مجھ سے بہتر عقل و دانش کا پیکر کوئی دوسرا نہیں۔ ہم دوسروں کو خود سے کم تر اور حقیر جانتے ہیں اور ہم خود کو علم و فضل اور لیاقت کا ہمالیہ سمجھ بیٹھے ہیں اور ہمارے نزدیک دوسروں کی اہمیت محض اجڈ، گنوار، کوڑھ مغز اور زمین پر رینگنے والے حشرات کے برابر ہے۔
اَنا پرستی کے زیر سایہ ہم اس قدر تعصب پسند اور تنگ نظر ہو چکے ہیں، کہ ہمیں اپنی ذات کے سوا دوسرا کوئی نظر ہی نہیں آتا۔معاشرے کو اَناﺅں کے خاتمے کی اشد ضرورت ہے۔
یہاں ہر کوئی اپنی اَنا کی وجہ سے ہلٹر یا سکندر بنا پھرتا اور دوسروں کو حقیر جانتا ہے، جس دن انسان اپنی اَنا پرستی کو شکست دے گا، اس کے اندر اور باہر کی دنیا میں تازگی اور کشادگی نازل ہو جائے گی۔
رسوم، رواج اور مادہ پرستی کچھ نہیں، یہ انسانوں کی اَناوں کی مدد کرتے ہیں اور انسان کو اپنا قیدی بناتے ہیں۔
یہ انا عید پر ہی نہیں زندگی کے ہر معاملے میں اکڑ جاتی اور معاشرے میں ناہمواری اور عدم استحکام پیدا کرتی ہے، اس لیے اس عید پر اس’اَنا‘کو قربان کر دیاجائے، تو معاشرہ بربادہونے سے بچ سکتا ہے۔
’اَنا‘ کو شکست دو اور سچ کو پالو یہی حقیقت ہے اور زندگی کی حقیقی دلکشی ہے۔