دُنیا بھر کے ممالک میں حکمرانوں کو یہ دوڑ لگی ہے کہ کس طرح وہ اپنے ملک کو مالی اعتبار سے مضبوط ومستحکم اور طاقتوربنا سکے اور یہاں رہائش پذیر لوگوں کی خوشحالی کیسے ممکن بن سکے ۔
جہاںتک ہمارے ملک یعنی بھارت کا تعلق ہے یہاں وزیر اعظم شری نریندرا مودی کا ابتداءسے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ملک کو مالی اعتبار سے مستحکم اور مضبوط کس طرح بنا سکے ،غالباً ان ہی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے جی ایس ٹی کا نفاذ بھی عمل میں لایا اور میک ان انڈیا پروگرام متعارف کیا ۔
ملک کو گندگی اور غلاظت سے صاف وپاک بنانے کیلئے لاکھوں ،کروڑوں پاخانے تعمیر کروائے جو کہ واقعی ترقی اور خوشحالی کی اور ایک قدم تصور کیا جارہا ہے ۔
اسے ملک کی بدقسمتی کہے یا پھر دشمنوں کی مہربانیاں کہ وہ اس ملک میں مذاہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کررہے ہیں۔
کوئی مندر مسجد کے نام پر ہندومسلم کو آپس میں لڑھوارہا ہے ،تو کوئی اناپ شناپ بیان داغ کر دشمنوں کے خاکوں میں رنگ بھر رہا ہے ،گزشتہ کئی روز سے پورے ملک میں مسلم برادری سے وابستہ لوگ حکومت اور اُن کے ترجمانوں کےخلا ف یہ کہہ کر احتجاج کررہے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے برگزیدہ پیغمبر ﷺ کے خلاف غلط بیانی کی اور ان کے دل مجروح کئے ہیں ۔
سرکار کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کی لگام کس لے جو ملک کے بھائی چارہ کو کسی بھی طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ تاثر دنیا چاہیے کہ بدلتی دنیا کےساتھ ساتھ ہم بھی بدل رہے ہیں کیونکہ یکجہتی میں ہی طاقت موجود ہے ۔





