اکثر مساجد اور خانقاہوں میں یہ درس سننے کو مل رہاہے کہ آخری وقت میں زمین پر سے نعمتیں اُٹھالی جائیں گی۔یعنی برکت ختم ہو جائے گی اور سب کچھ ہونے کے بعد برکت نہیں ہو گی اور لوگ ہر چیز کی کمی محسوس کرنے لگے گے ۔
ایساہی دیکھنے کو مل رہا ہے پہلے ایام میں جو برکت ہوتی تھی اب کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ مثلاً گاﺅں کی زندگی پر نظر دوڑاتے ہیں تو محلے میں ایک گھر کے پاس گائے ہوتی تھی تو سارا محلہ دودھ سے مالامال ہوتا تھا ۔ایک کسان سبزی اُگاتا تھا تو پورے محلے کے لوگ لیتے تھے ،اپنے ہی گھروں میں بطخ ،مرغ اور بھیڑ وغیرہ پالتے تھے۔ یعنی سب کچھ بہ آسانی صاف اور شد دستیاب ہوتا تھا۔
اب ہر ایک کے پاس دولت ہے لیکن وہ صاف اور شد دودھ ،سبزی یادیگر چیزیں نہیں ملتی ہیں، آخر کیوں؟جہلم کے ساحل پر بیٹھ کر راہل ساحل سے سوال کرتا ہے ایسا کیوں ہو رہا ہے سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ اچھا او ر صاف وشد کیوں نہیں مل رہا ہے، ہر چیز میں ملاوٹ کیوں ہوتی ہے ؟۔شہر ودیہات میں عوام کیوں روتی ہے ؟۔ایسا لگتا ہے انسان کی سوچ میں ملاوٹ آگئی ہے ،وہ ہر بات اور ہر چیز کو دنیا پرستی اور دولت کے ترازو میں تولتا ہے ۔
شاید اسی لئے ان میں نہ لذت ہے، نہ مٹھاس۔۔ ٹھیک اُسی طرح جس طرح آج کی انسانی سوچ اور بازاروں میں دستیاب چیزوں میں ملاوٹ ،ہے نا بھائی۔ جہلم کے کنارے بیٹھ کر ان ہی باتو ں پر روز بحث ہو رہی ہے ۔




