غلام دستگیر
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ کشمیری لوگ سادہ لوح تھے لیکن بیسوی صدی کے آخری نصف حصے میں جب تعلیم کا بول بالا ہوا تو مقامی سطح پر ڈاکٹر ،انجینئر اور عہدیدار بن گئے ۔
لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مال مل گیا اور وہ اپنی بستیوں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے ۔
نئے تقاضوں کے مطابق بود وباش کرنے لگے ۔پرانے محلوں میںجو میل میلاپ خلوص اور بھائی چارہ تھا ختم ہو گیا ،سماجی رابطے مفقود ہو گئے ۔
دولت ملنے والے لوگوں کو ذات بدلنے کی بیماری لگ گئی ،نئی ذاتیں اور نئے القاب بوڈوں پر لکھوائے ،تین بھائی تین زاتوں میں بٹ گئے ۔کوئی گیلائی ،کوئی سمنانی اور کوئی خراسانی بن گیا ۔
اللہ جھوٹ نہ بلوائے ہمارے محلے میں کوئی سیدنہ تھا ہاں میر اور پیر زاتیں تھیں ۔آج ان ہی کی اولادیں سید لکھتے ہیں جو حقیقی معنوں میں سید کے معنی سے بھی بے خبر ہیں۔ سیدپر بھیک حرام ہے لیکن اب اس ذات کے لوگ مختلف طریقوں سے بھیک مانتے ہیں ۔
اسی مرض کےساتھ ایک اور مرض بھی بڑھ گیا کہ اپنے نام سے پہلے ذات لکھتے ہیں، مثلاً میر اعجاز ،ڈار اشرف ،شیخ الطاف ،راتھر سلطان وغیرہ وغیرہ ۔اس تمام پر غور کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے اسلام میں ذات پات اور بھید بھاﺅ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے بلکہ یہاں عمل ہی سے انسان کی عظمت اور پہچان بن جاتی ہے ۔لکھ دیتا ہوں تاکہ سندرہے ۔





