وادی کشمیر میں جگہ جگہ اب پیر نما ٹھگوں نے مختلف طریقوں سے لوگوں کو لوٹنے کا کا م شروع کر رکھا ہے اور یہاں ہفتے میں کئی دن اب لوگوں کو ملنے کیلئے مختص رکھے گئے ہیں اور علاج ومعالجہ اور دیگر کاموں کو انجام دینے کیلئے باضابطہ ٹوکن یعنی خصوصی ملاقات ٹکٹ رکھی گئی ہے ،جس کو حاصل کرنے کیلئے پہلے باضابطہ فیس جمع کرانا پڑ رہا ہے ۔وادی کشمیر واقعی صدیوں سے ایک ایسی وادی تصو ر کی جا رہی ہے جہاں جگہ جگہ بزرگان دین ،صوفی ،سنت اور پیروں فقیروں نے جنم لیا ہے ،اس طرح یہاں کے عام لوگوں کو ان حضرات سے کافی زیادہ عقیدہ وابستہ ہے ۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ آج بھی لوگ نہایت ہی عقیدت واحترام کےساتھ ان بزرگوں کی قبروں کی زیارت کرنے جاتے ہیں اور دنیا کی اصل حقیقت سے خود کو واقف کرانے کی جستجو کرتے رہتے ہیں لیکن چند دہائیوں کے نامساعد حالات سے جہاں یہاں کا ہر شعبہ مختلف طریقوں سے متاثر ہوا ہے، وہیں یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ لوگوں نے دولت کمانے کے آسان طریقے بھی اب ڈھونڈ لئے ہیں ۔
کسی نے بندوق کو ناجائز ہ استعمال کر کے اسکو دولت کمانے کا بہترین ہتھیار ثابت کیا ہے اور کسی نے مسجد او ر مندر کو اپنی جاگیر بنا کر یہاں سے دولت حاصل کرنے کا راستہ تلاش کیا ۔
کسی نے رضاکار تنظیم یا سیاسی تنظیم بنا کر اپنے لئے عیش وعشرت کا سامان پیدا کیا۔بہرحال یہ سلسلہ برسوں تک جاری رہا ، تاہم یہاں سے پیدا ہو رہی تباہی کے ذرائع کو مدنظر رکھ کر سرکاری ایجنسیوں نے بہت سارے لوگوں کی نکیل کس لی ،لیکن بہت سارے لوگوں نے حکام کی نظرو ں سے خود کو بچانے اور آسان طریقے سے دولت کمانے کیلئے ایک اور کام شروع کر لیا ہے اور وہ ہے کسی مخصوص جگہ پر بیٹھ کر پیر فقیری کی گدی سنبھالنا اور اس طرح اپنا مخصوص نیٹ ورک قائم کر کے لوگوں سے مال وجائیداد ہڑپ کرنے کےساتھ ساتھ اُنہیں اپنا مرید بنانا شامل ہے ۔
حالیہ دنوں ترال علاقے میں ایک اسی طرح کے پیر نما ٹھگ نے ایک لڑکی کو جن نکالنے کے نام پر ازجان کیا ،اسی طرح بدنام زمانہ جنسی اسکنڈل والے گلزار پیر جیسے بہت سارے لوگ وادی میں موجود ہیں، جو اندھی تقلید کو لیکر لوگوں کو اپنی جانب پھنسانے میں ماہر ہوتے ہیں۔
اسطرح وہ سرکاری افسران ،دولت مند افراد اور اثر ورسوخ رکھنے والے لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنے لئے عیش وعشرت کا سامان میسر کرواتے ہیں ،اسطرح عظیم صوفیت اور روحانی سلسلے کو بدنام کرتے رہتے ہیں ۔
جہاں سرکاری ایجنسیوں کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ درویش نما ٹھگوں پر نظر گذر رکھیں، وہیں ذی حس لوگوں کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ لوگوں کو روحانی تعلیمات سے باخبر کر کے ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی تربیت بھی دیں جو درویشی کے نام پر دھوکہ دیہی کا کام انجام دیتے ہیں کیونکہ کسی بھی روحانی انسان نے روحانیت کو تجارت نہیں بنایا ہے جو حقیقی خداپرست ہو ۔





