جہلم کے کنارے دوبزرگ آپس میں محو گفتگو تھے اور ہندی فیچر فلم ”میں آزاد ہوں “ کی کہانی ایک دوسرے کو سناتے تھے اور موجودہ صحافت پر افسوس کا اظہار کرتے تھے ۔
اس فلم کی کہانی ایک آوارہ نوجوان سے شروع ہوتی ہے جس کو وقت کے صحافی اپنے قلم کی جولانیوں سے ایک ایسا لیڈر بنا دیتے ہیں، جو حقیقی معنوں میں لوگوں کے روزمرہ کے مسائل حل کرتے کرتے اپنی جان دینے کیلئے تیار ہوتا ہے ۔
دونوں بزرگ قلم کی طاقت اور اخباری مدیر کی عزمت بیان کرتے تھے کہ کس طرح وہ ہر قسم کا انقلاب معاشرے میں پیدا کرسکتے ہیں ۔
سچ تو یہ ہے ہماری اس وادی میں نہ اب ایسے قلمکار نظر آرہے ہیں نہ ہی ایسے پیشہ ورصحافی۔
حدتو یہ ہے کہ سماج بھی ایسے لوگوں کے نظریہ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، اسی لئے وہ کسی فیاض سکارپیو اور ببر شیر جیسے نوجوانوں کے پیچھے پیچھے بھاگ کر دن رات اُنکے راگ گاتے ہیں، جو انہوں نے سوشل میڈیا پر گائے ہیں ۔
اس تمام صورتحال کو دیکھ کر راہل افسوس کےساتھ کہہ رہا ہے کہ اس قوم کی حالت کب سُدھر ے گی اور کب لوگ صحیح اور غلط میں تمیز کرنا سیکھ جائیں گے جیسے کہ ہمارے اسلاف بغیر کسی مروجہ تعلیم کے بخوبی جانتے تھے ۔لکھ دیتا ہوں تاکہ سندرہے ۔





