اس شہر میں سچ بھولنا اور کسی کو صحیح مشورہ دینا گناہ تصور کیا جا رہا ہے ۔
جھوٹ بولنے کی بیماری اس قدر عام ہو چکی ہے کہ ہر کوئی اسکا اچھا خاصہ دام وصول کر لیتا ہے ۔
کوئی سرکاری سطح پر جھوٹ بول کر لوٹ کر رہا ہے اور کوئی غیر سرکاری سطح پر اس جھوٹ کی بدولت اچھا خاصہ سوٹ بوٹ پہن لیتا ہے ،بڑی گاڑی اور عالیشا ن بنگلہ خرید لیتا ہے ،زمین وجائیداد کا مالک بن جاتا ہے ۔
کس کو معلوم نہیں کہ وادی میں 1990ءسے قبل کسی کے پاس بنگلہ گاڑی نہ تھی نہ ہی لوگوں کے پاس اس قدر تعلیم وتربیت ،تجارت کے ذرائع تھے ۔
لیکن ملی ٹنسی کی جنگ سے یہاں لوگ تنگ ہونے کے بجائے نئے رنگ میں آگئے ۔ٹھاٹ بھاٹ ،بنگلہ گاڑی آگئی ،شاپنگ مال تعمیر ہو گئے ،پھر بھی ہم حالات کو کوس رہے ہیں ۔بھائی کیوں ؟یہ تو سراسر ناانصافی ہے ،مزدور ہیومن رائٹس کا وکیل اور جج بن گیا ،میوہ فروش اور ٹیکسی چلانے والے ڈرائیور حضرات صحافی بن گئے ،جنگل چور ٹھیکہ دار اور وزیر ہو گئے، پھر بھی ہم نالاںہیں، آخر کیوں ؟یہاں اگر کوئی کمزور ہو گیا ہے وہ صرف شائستہ اور ذہین انسان ہو گیا جو ہمیشہ سچ بولتا رہا کیونکہ سچ بولنا جر م ہے ۔





