گزشتہ ایک ہفتے سے وادی اور جمو ں کے بیشتر علاقوں اور صدر مقامات پر کشمیری پنڈت برادری سے وابستہ لوگ حالیہ ہوئی پنڈت نوجوان کی ہلاکت کےخلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ سرکار اُنہیں تحفظ فراہم کرے یا پھر اُنہیں واپس جموں منتقل کیا جائے ۔
گزشتہ روز بڈگام کے اُوم پورہ بڈگام مائیگرنٹ کیمپ میں کشمیر زون کے پولیس انسپکٹر جنرل، وجے کمار نے حاضری دی اور وہاں احتجاج پر بیٹھے پنڈتوں سے کہا کہ وہ اپنا احتجاج ختم کریں اور یہ ہرگز نہ سوچیں کہ وہ کشمیر چھوڑ کر جموں چلے جائیں گے ۔
بقول ان کے وجے کمار ملی ٹینٹ اور اُن کے آقا یہی چاہتے ہیں اور اس اقدام سے اُن کے منصوبے کامیاب ہوں ۔
انسپکٹر جنرل نے مزید کہا کہ آئندہ ایک سال میں ملی ٹنسی کا خوف ختم ہو جائے گا اور پنڈتوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جائے گا ۔
1990ءسے شروع ہوئی ملی ٹنسی نے نہ صرف جموں وکشمیر کے عوام کو مسائل ومشکلات کے بھنور میں ڈال دیا بلکہ آگ وخون کا کھیل اس طرح کھیلا گیا کہ ہر عام وخاص اس سے متاثر ہوا ۔
جہاں تک مرنے مارنے کا تعلق ہے ملی ٹینٹوں کا نیٹ ورک اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ وہ کسی کو بھی کسی بھی جگہ مارسکتے ہیں ،اسکی تازہ مثال پنڈت نوجوان راہول بھٹ کی ہے جنہیں تحصیل آفس میں مارا گیا ۔1990میں جب یہاں سے لوگ جموں اور ملک کے دیگر حصوں میں جان بچانے کی غرض سے بھاگ گئے ،تب بھی ولی محمد ایتو جو کہ اسمبلی میں بحیثیت اسپیکر رہے تھے ،جموں کے کھٹیکا تالاب میں دن دھاڑے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ۔
دنیا کی کوئی بھی جگہ موجودہ حالات میں محفوظ نہیں ہے کیونکہ اصل میں انسانی ذہن آلودہ ہو چکے ہیں ،ایک دوسرے کےخلاف سیاسی لیڈران ،مافیا ،اسمگلر اور مذہبی ٹھیکہ دار لوگوں کو مختلف طریقوں سے استعمال کر رہے ہیںاور ملی ٹنسی بھی اسی کا ایک حصہ ہے جو کبھی پنجاب ،کبھی کشمیر اور کبھی ممبئی اور اجمیر جیسے شہروں میں اپنا سر باہر نکال رہی ہے ۔
اس کا مقابلہ کوئی بھی ملک ،قوم یا معاشرہ مل جل کر سکتا ہے ، نہ کہ الگ الگ خانوں میں بٹ کر ممکن ہے ۔
رہا سوال آئی جی کشمیر کا کہ ایک سال میں خوف ختم ہو جائے گا ،گزشتہ 3دہائیوں سے یہاں ملی ٹنسی چل رہی ہے کبھی طاقتور اور کبھی کمزور ہو رہی ہے لیکن جو بھی انسان ایک بار خوف میں مبتلاءہو جاتا ہے، اُسکو کوئی تحفظ نہیں دے سکتا ہے ۔
کشمیر ی پنڈت اور مسلمان ایک ساتھ مل کر یہاں امن وترقی ممکن بنا سکتے ہیں ۔
شر ط یہ ہے کہ کسی کے بہکاﺅے میں نہ آئیں بلکہ ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ مل کر متحد ہو جائیں ، یہی اس بیماری کا واحد علاج ہے ،جو روز یہاں زور پکڑتی ہے اورلوگوں کو درد دیتی ہے ۔





