مہذب سماج کی بالادستی ۔۔۔

مہذب سماج کی بالادستی ۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

کسی بھی دور میں تعلیم کی افادیت اور اس کی روحانی ضرورت سے منہ موڑا نہیں جا سکتا۔ تعلیم کو زندہ قوموں اور مہذب سماج کی بالادستی اس کی عظمت کی علامت گردانا جاتا ہے۔

تعلیم یافتہ معاشرے کی پہچان صبر ، انکساری شکر گزاری، خوف خدا اور عزم و استقلال جیسی اہم ترین عادات زندگی کا جزو لاینفک بن جاتی ہیں۔ حتی کہ تعلیم یافتہ سماج با حوصلہ ، بلند ہمت اور انسانی اقدار کا سچا علمبردار مانا جاتا ہے۔

اسی کے ساتھ یہ بھی کہنا ضرور ی معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کمزور ترین سماج کو طاقتور بنانے میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔

تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ پاکیزہ اور صلح افکار سے متصف معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئے تاکہ سماج ہمدردی ، غمگساری اور خیر سگالی کے جذبہ سے معمور ہو۔

تعلیم یافتہ افراد نور علم اور اپنی سنجیدہ کاوشوں کی بدولت نوع انسانیت کی سعادت و کامرانی کی فکر کرسکیں جب معاشرے میں اس نوعیت سے محنت کی جائے تو یقینا براہ راست اس کا فائدہ اہل علم کو ہونے کے ساتھ ساتھ سماج کے دبے کچلے اور علم سے محروم افراد کو بھی ہوگا اور اس صداقت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تعلیم کے حصول کا جو ثمرہ ہے، وہ یہی کہ بشریت کو زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہو۔ تعلیم کی روشنی ان گھروں تک بھی جائے جو لاچاری ،مجبوری ،معاشی کمزوری اور ناداری کی وجہ سے دولت علم سے محروم ہیں۔علم ایک ایسی دولت ہے جس میں جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں اور انسان کے دل و دماغ آگہی سے واقف ہوتا ہے۔

یہ وہ قیمتی خزانہ ہے جس سے معاشرے کا ہر فرد مستفید ہوتا ہے اور انسا ن کی مکمل تکمیل کا خزانہ ہے۔ علم کے ذریعہ سے انسان کی شخصیت اور روحانیت کے منازل طے کرتی ہے۔ تعلیم یافتہ افراد ایک بہترین تہذیب و تمدن اور مہذب معاشرے کو جنم دیتے ہیں۔

تعلیم سے ہی ہم اپنے علمی ورثہ اور اپنے تہذیبی و ثقافتی زیور اور اعلی اقدار کو سنبھال کر اس سے مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ماحول کے مطابق اس میں تعمیر نو کا رنگ بھر سکتے ہیں۔ تعلیم ہر انسان کی ضرورت ہے ، مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔

تعلیم و تربیت کا سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ انسانی شخصیت کو اعلی کردار کی چوٹی تک پہنچایا جائے۔

اسلام نے انسان کی اس عظمت کی وجہ سے یہ تعلیم دی ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے کی عزت و تکریم کرے اور محبت سے پیش آئے۔تعلیم کا سب سے پہلا مقصد خود اپنی ذات کی تشکیل ہے اور اپنی صلاحیتوں کا نشو ونما اور ارتقاءہے۔

یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آپ کے سامنے زندگی کے اصول اور قانون و ضوابط نہ ہوں جس کے لیے آپ پورے کے پورے وقف ہوں جو فکر و خیال کا مرکز اور تگ ودو کا محور ہو۔

پھر یہ مقصد جتنا اعلیٰ اور آپ کی فطرت سے ہم آہنگ ہوگا اتنا ہی آپ کا ارتقاءہوگا اور جتنی ہی یکسوئی اور والہانہ سپردگی کے ساتھ آپ اس مقصد کو اختیار کریں گے اتنی ہی قریب آپ کی منزل ہوگی۔ زندگی میں قیمت اور وزن کسی مقصد کو اختیار کرنے سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔

ورنہ مقصد زندگی کے بغیر انسان ایک ایسی مشت خاک ہے جس کو ہر آنے جانے والا قافلہ اپنے پاو¿ں تلے روندتا چلا جاتا ہے۔

علم کی شمع کو روشن کرکے حکومت جہاں اپنا کردار ادا کررہی ہے ،وہیں سماج کے طبقہ ہائی فکر کوبھی اپنا رکلیدی رول ادا کرنا ہوگا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.