خطرے کی گھنٹی۔۔۔۔

خطرے کی گھنٹی۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

اقوام متحدہ کی ذیلی کمیٹی ”انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج(آئی پی سی سی)“ گزشتہ برس کی ایک رپورٹ دنیائے انسانیت کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ وہ ترقی کی رفتار میں انسانی وجود کا خاتمہ چاہتی ہے یا پھر عالمی تباہی سے بچنے کے لیے وہ کوئی لائحہ عمل تیار کرکے کسی ایسے اجتماعی فیصلے پر پہنچے گی، جو دنیا کو جلد تباہی سے بچا سکے۔

عالمی حدت، ماحولیاتی عدم توازن اور اس کی تبدیلی بیسویں اور اکیسویں صدی کا سب سے بڑا عالمی المیہ ہے،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت کرہ ارض کے درجہ حرارت اور آبی سطح میں اضافہ سے پریشان انسان ہی نہیں حیوانات یہاں تک کہ نباتات تک اس کی زد میں ہیں۔اس سے بھی سب بخوبی واقف ہیں کہ یہ سب انسانی ہاتھوں کی کرتوت کا نتیجہ ہے۔

اس کے باوجود نشستن،برخاستن سے زیادہ کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی ہے۔فرد سے لے کر حکومت بلکہ دنیا کی حکومتیں اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔ چونکہ دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں جمہوری نظام حکومت ہے جس کی وجہ سے قوت مقتدرہ معینہ مدت کا بہانہ کرکے عملی اقدام سے خود کو بچا لیتی ہے ۔

جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ طویل مدتی منصوبے بنا کر حکومتیں اس پر کام کرتیںاور دنیا کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرتیں۔

اقوام متحدہ نے گلوبل وارمنگ یاعالمی حدت میں اضافہ سے متعلق ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے اس کو دنیائے انسانیت کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے،جس کے لیے انسانوں کے علاوہ کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔

آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق ’عالمی حدت میں اضافہ ہو رہا ہے،کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت سال 2030 تک 1.5ڈگری سیلسیس تک بڑھ جائے گا،درجہ حرارت میں یہ اضافہ اندازے سے ایک دہائی قبل ہی ہوجائے گا۔

رپورٹ کے مطابق اس اضافے کی وجہ سے پوری دنیا میں موسم سے متعلق قدرتی آفات آئیں گی۔کرہ ارض کو گرم کرنے والی گیسوں کا اخراج جس طرح تیزی سے جاری ہے اس کی وجہ سے صرف دو دہائی میں ہی درجہ حرارت کی سبھی حدیں ٹوٹ چکی ہیں۔

اس صدی کے خاتمے تک سمندر کی آبی سطح میں دو میٹر کا اضافہ متوقع ہے لیکن گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج میں تخفیف کرکے اس درجہ حرارت کو روکا جا سکتا ہے۔

‘عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلی وتغیر کی تند ہواﺅں سے جموں وکشمیر بھی محفوظ نہیں رہا ۔مارچ ،اپریل اور مئی میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت معمول سے کہیں زیادہ ریکارڈ کیا گیا ۔

ماہ اپریل میں رات کا درجہ حرارت وادی کشمیر میں معمول سے دس ڈگری سیلسیس زیادہ ریکارڈ ہوا جبکہ رواں مہینے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 31ڈگری تک جا پہنچا جبکہ جموں میں یہ درجہ حرارت 44ڈگری ریکارڈ کیا گیا ۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جموں وکشمیر بھی گلوبل ورمنگ کی زد میں ہے ۔

جھارکھنڈ،چھتیس گڑھ،مدھیہ پردیش اور گجرات کیساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھی جنگلات کی کٹائی اور آبی ذخائرکا سکڑنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔اس سے جہاں ایک طرف انسانوں کیساتھ ساتھ حیوانات کے حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، وہیں اس سے ماحولیات کا توازن بھی بگڑتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی انتظامی سطح پر متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقیات کے نام پر جنگلات کو صنعت کاروں کے حوالے نہ کریں بلکہ ایسے متبادل منصوبے تیار کیے جائیں جس سے انسانی زندگی اور تہذیب و ثقافت پر منفی اثرات بھی نہ پڑیں اور اس سے ماحولیات میں عدم توازن کا بھی مسئلہ ختم ہو۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.