خون ِ ناحق میں غلطاں جنت بے نظر۔۔۔

خون ِ ناحق میں غلطاں جنت بے نظر۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

گزشتہ چند روز سے وادی کشمیر کی فضا میں کشیدگی کی ہوا دیکھنے کو مل رہی ہے ۔چند روز قبل چاڈورہ بڈگام کے تحصیل دفتر میں بندوق بردار داخل ہوئے اور پنڈت ملازم راہل بھٹ کو گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا ۔اس ہلاکت پر احتجاج کی لہر دوڑ گئی ،جو گزشتہ تین روز سے جاری ہے ۔

آج یعنی ہفتہ کو پی ایم پیکیج کے تحت مختلف سرکاری محکموں میں تعینات درجنوں پنڈت سرکاری ملازمین نے احتجاج کیا اور انصاف کی صدا بلند کی ۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ گیارہ سال سے کشمیر میں ملازمت کررہے ہیں ،لیکن گزشتہ ڈیڑھ سے ماحول ایسا بنا ہوا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے ،وجہ سب کو پتہ ہے اور حکومت بھی جانتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ وہ اجتماعی استعفیٰ دیں گے اور وہ ایسی نوکری نہیں کریں گے ،جہاں پر جان کا خطرہ ہو ۔اس کشیدہ ماحول کے بیچ جنوبی ضلع کولگام میں مسلمانوں نے آنجہانی پنڈت خاتون کی آخری رسومات انجام دیں ،یہی تو کشمیر کی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی زندہ روایت ہے ۔

اس حقیقت کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا کہ ایک بے گناہ کا قتل ،پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے ۔اس شورش زدہ اور خون ِ ناحق میں غلطاں جنت بے نظر میں نوے کی دہائی سے اب تک نامعلوم ،ملی ٹنٹ اور سرکاری بندوقوں سے چلنی والی گولیوں کی زد میں آکر کئی بے گناہوں کا قتل ِ نا حق ہوا ہے اور ایسے واقعات ایک نہیں ،دو نہیں بلکہ اَن گنت ہیں اور ثبوت گمنام قبریں اور راہول بھٹ کی تازہ ہلاکت ہے ۔

امیر المومنین فی الحدیث امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری اپنی صحیح میں معروف صحابی رسول، حفظ و کتابتِ حدیث میںمشہورحضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:’وہ وقت بھی آنے والا ہے جب زمانے ایک دوسرے کے قریب ہوں گے، علم اٹھا لیا جائے گا، فتنے پھوٹ پڑیں گے، بخل ڈالا جائے گا اور ہرج زیادہ ہوگا۔صحابہؓ نے یہ سن کر عرض کیا:’ائے اللہ کے رسولﷺ!”ہرج“ کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”قتل و غارت گری“۔

حدیث بالا کی روشنی میں جب ہم اپنے ماحول پر ایک طائرانہ نظرڈالتے ہیں، گِرد وپیش کا سرسری جائزہ لیتے ہیں اور روز مرہ پیش آنے والے واقعات کو پڑھتے،سنتے یا دیکھتے ہیں تو صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ان دنوں قتل وخونریزی کی وباسب سے زیادہ عام ہے۔ دنیا کی چند کوڑیوں یا مختصر سی زمین وجائیدادکے لیے کسی کوقتل کر ڈالنا معمول بن چکا ہے،چھوٹی چھوٹی بات کو لے کرباپ بیٹے سے،بھائی بھائی سے،شوہر بیوی سے اور پڑوسی پڑوسی سے آمادئہ پیکار ہے۔جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جارہاہے انسانیت مٹتی جارہی ہے، مروت مائل بہ زوال ہے، قرابت کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی،بے لوث دوستی کا تصور بھی محال ہوچکا ہے،انسانی جان تو مچھر اور مکھی سے بھی کم تر وحقیرہوگئی ہے۔

آئے دن پُراسرار نوجوانوں اور بزرگوں کی لاشیں مل رہی ہیں،بے گناہ قتل ہورہے ہیں اور سفاک درندے ہرطرف دندناتے پھررہے ہیں؛مگر حیف صد حیف کسی کو احساس زیاں نہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ جب معاشرے میں ایک دوسرے کی جان کا احترام نہیںرہے گا،تو تمدن کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیںگی،بدامنی و انارکی پھیل جائے گی اور ظلم وسرکشی کا ہرسمت بول بالا ہوگا۔لہٰذا قتل وغارت گری پر خاموش اختیار کرنا ،کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے کس کو بھی یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ کسی کی جان لے ۔وجوہات کی تہہ جانا سب کی ذمہ داری ہے ،جہاں حکومت کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا ،وہیں سیول سوسائٹی پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔سیاسی جماعتوں کو پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر یک آواز میں خون ِ ناحق کو روکنے کے لئے آواز بلند کر نی ہوگی ۔

حکومت کو اَنا کے گھوڑے سے اتر کر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا تاکہ امن اور ترقی کی راہ ہموار ہو ۔

عوامی نمائندوں کو دیوار سے لگا یا نہیں جاسکتا اور نہ ہی کسی کو تنا کیا جاسکتا ہے ۔متحد د اور امن مذاکرات سے ہی بات بن جائے گی ،بصورت دیگر خانوں میں بٹ کر قتل وغارت گری کا یہ کھیل یو ں ہی چلتا رہے گا اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ۔آﺅٹ آف بُکس سوچنے کی ضرورت ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.