یکجا ہونے کی ضرورت

یکجا ہونے کی ضرورت

وادی میں ایک بار پھر حالات نے سنگین رُخ اختیار کر لیا ہے کیونکہ یہ پہلا موقعہ ہے جب ہزاروں کی تعداد میں کشمیری پنڈتوں نے جگہ جگہ احتجاج کیا اور نعرہ بازی کی۔

یہ احتجاج بنیادی ضروریات کی چیزوں یا روزگار کو حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا گیا بلکہ یہ احتجاج ایک اور نوجوان کشمیری پنڈت کی ہلاکت پر ہوا ،جس کوملی ٹینٹوں نے تحصیل آفس چاڈورہ میں دن دھاڑے قتل کیا ۔

راہول بٹ نامی اس پنڈت نوجوان کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہ اپنے گھروالوں کو پالنے کیلئے سرکاری ملازمت کرتا تھا ۔

اس طرح کے حالات 1990ءمیں بھی دیکھنے کو ملے جب ہر علاقے میں کشمیری پنڈتوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور وہ یہاں سے رات کی تاریکی میں اپنی زمین وجائیداد ،اپنا مادری وطن چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور ہو گئے ۔

دہائیوں بعد سرکار نے ان کشمیری پنڈتوں کی باز آبادکاری اور انہیں اپنے آبائی گاﺅں میں واپس لانے کا منصوبہ تیار کیا اور اس حوالے سے مختلف اسکیمیں ترتیب دی گئیں ۔

وزیر اعظم خصوصی پیکیج کے بعد واپس آنے والے پنڈت نوجوانوںکو سرکاری ملازمتیں فراہم کی گئیں اور راہل بٹ بھی اس اسکیم کے تحت یہاں آیا تھا اور اپنا اور اپنی اہل وعیال کا پیٹ پالتا تھا، غالباً یہی اس نوجوان کا جرم بھی تھا ۔

کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اور اُن کی گھر واپسی کیلئے ہر ایک کشمیری مسلمان نہ صرف خوش ہوا بلکہ اُنہوں نے وادی آنے والے پنڈتوں کا روتے بلکتے استقبال بھی کیا جس کی تازہ مثال شہر خاص کے بہوری کدل علاقے میں 30سال بعد اپنی دکان کھولنے والے بزرگ پنڈت کی ہے۔

دشمن کی ہمیشہ سے یہ چال رہی ہے کہ وہ تقسیم کرو اور اپنا الوسیدھا کرﺅ والی پالیسی اپنا رہا ہے وہ کسی بھی صورت میں کشمیری قوم کو یکجا ہونے نہیں دے گا کیونکہ اس عمل سے وہ یعنی دشمن کمزور ہو جائے گا ،لہٰذا ایسے واقعات وہ تب تک انجام دیتا رہے گا جب تک نہ کشمیری عوام جس میں ہندومسلم سکھ عیسائی شامل ہیں یک جٹ نہ ہو جائیں ۔

جہاں تک مرکزی سرکار اور یوٹی انتظامیہ کا تعلق ہے اُنہیں اس حوالے سے گہرائی سے سوچنا چاہیے او ر ایسے افراد کےخلاف کارروائی کریں جو مذہبی بھائی چارے کو زک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں اور ہاں 1990ءجیسے حالات پیدا کرنے کے خواہا ں ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.