یوتھ کلب اور درپیش گھمبیر چیلنجز

یوتھ کلب اور درپیش گھمبیر چیلنجز

تحریر:شوکت ساحل

جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گور نر ،منوج سنہا کا کہنا ہے کہ نوجوان ہماری سے سے بڑی امید ہیں جبکہ تعمیر وترقی اور خوشحالی کے لئے یوتھ کلب اہم معاﺅن کا کر دار ادا کررہے ہیں ۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوتھ کلب نوجوان نسل کو معاشرے میں اپنا حصہ ڈالنے اور خود کو ترقی دینے کا موقع فراہم کرتے ہیں جبکہ یوتھ کلبوں کے ذریعے وہ نہ صرف حکومت کی مختلف روز گار اور خود روز گار اسکیموں کے بارے میں بیداری پیدا کر رہے ہیں بلکہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں اور خواتین کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کیلئے متحد کر رہے ہیں ۔

جموں وکشمیر کے20اضلاع کے74ہزار771سے زیادہ نوجوانوں نے یوتھ کلبوں میں شمولیت اختیار کی ہے ، جو نوجوانوں کو حقیقی چیلنجز سے نمٹنے اور بامقصد تبدیلی لانے کا موقع فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔

20 اضلاع میں کل4ہزار522 یوتھ کلب بنائے گئے ہیں جن میں سب سے زیادہ9ہزار نوجوانوں نے پونچھ ضلع میں داخلہ لیا ہے ۔

بھارت کی کل آبادی میں سے 15سے24سال کی عمر کے 229.0ملین نوجوانوں کی آبادی ہے ۔خوش قسمتی سے بھارت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جہاں آبادی کے لحاظ سے نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس حقیقت سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اورجب قوم کے نوجوان بلند حوصلہ، جذبہ اور قوم کی خدمت کے لئے کچھ کرنے کا جنون رکھتے ہوں تو وہ قوم ترقی کی منازل طے کرکے اعلیٰ اقدار کے منصب پرفائز ہوتے ہیں ۔

اگر قوم کے نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہو تو اس قوم کا مستقبل تاریک ہوجاتاہے۔ بدقسمتی سے آج بھارت کیساتھ ساتھ جموں وکشمیر کے نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے خاصے پریشان اور مایوس نظر آتے ہیں، کیوں کہ جموں وکشمیر میں نوجوانوں کو آگے بڑھنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے سہولتوں سے زیادہ مسائل اور دشواریوں کا سامنا ہے۔ نوجوانوں کے مسائل حل کیے بغیر ملک اور جموں وکشمیر میں نہ تو ترقی ممکن ہوسکتی ہے نہ ہی امن و امان قائم ہوسکتاہے۔ ملک اور جموں وکشمیر میں نوجوانوں کو درپیش گھمبیر مسئلہ بیروزگاری ہے، ملازمتوں کی عدم دستیابی اور روزگار کے حصول میں دشواری کے سبب مایوسی کی کیفیت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔

نوجوانوں کے لئے صحت مندانہ تفریح کے مواقع حسب ضرورت دستیاب نہیں۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ معیاری تعلیم ہمارے نوجوانوں کےلئے ابھی تک ایک خواب ہے بالخصوص غریب نوجوانوں کو عام تعلیم اور فنی تعلیم کی سہولتیں ضرورت کے مطابق حاصل نہیں۔

نوجوانوں کو حصول علم کے ساتھ ساتھ بہتر اخلاقی تربیت کے حصول میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے ،جس کی وجہ سے نوجوان منفی سرگرمیوں کی طرف مائل ہو رہے ہیںجبکہ ہماری یونیورسٹیاں اور کالجز ڈگریاں تقسیم کرنے والی مشینیں بن گئے ہیں۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری نہیں تعلیم کا حقیقی مقصد نوجوانوں کا مستقبل سنوارنا ہوتاہے۔

تعلیم سے فراغت کے بعد جب نوجوانوں کو اپنے علم و فن کے مطابق ملازمتیں دستیاب نہیںہوتی تو بے روزگا ری کی یہ صورتحال پیچیدہ شکل اختیار کرلیتی ہے اور نوجوانوں میں سماجی عدم تحفظ ، لاقانونیت ، بے راہ روی اور منشیات کے استعمال جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں ، جبکہ بینکوں اور گھروں میں ڈکیتیوں ، اور امن و امان کی خراب صورتحال کی ایک بڑی وجہ بھی بے روزگاری اور ملازمتوں کے حصول میں دشواری ہی نظر آتی ہے۔

اس صورتحال کے باعث غریب گھرانوں کے اکثر والدین غربت کی وجہ سے بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں ، جس سے نوجوان خاندان کی کفالت کے قابل تو ہوجاتا ہے ، مگر حصول علم کے بغیر اس میں معاشرے کی اچھائی ، برائی کو سمجھنے اور معاملات فہمی کی طاقت و سمجھ بوجھ نہیں ہوتی اور اس طرح اس کی صلاحیتیں قدرے جلد ختم ہوجاتی ہیں۔

نوجوانوں کے لئے یوتھ کلب قائم کرنے سے نوجوانوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے زیادہ سے زیادہ وسائل پیدا کرنے ہوں گے ،سہولیات دستیاب رکھنی ہوں گی۔

اسکول اور کالج چھوڑ چکے نوجوانوں کے لئے بھی پالیسی ترتیب دینا ضروری ہے ،جن میں بھی کافی صلاحیتیں موجود ہیں ،جنہیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.