جمعرات, جولائی ۱۰, ۲۰۲۵
18.8 C
Srinagar

سرخ لکھیر تو نہیں ؟۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

دنیا میں کوئی ایسا خطہ نہیں ،جہاں خاندانی سیاست کا غلبہ نہ ہو ۔گوکہ سیاست کسی کی جاگیر نہیں اور ناہی کسی ملک کا اقتدار کسی کی میراث ہے ۔

وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے حال ہی’یوم آئین ‘ کے موقع پر پارلیمنٹ میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خاندان پرمبنی سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ بدعنوانی میں ملوث لوگوں کی عزت افزائی نوجوانوں کو غلط راستے پر چلنے کے لئے اکساتی ہے۔

نریندر مودی کا دعویٰ ہے کہ کشمیر سے کنیا کماری تک ہندوستان کے ہر حصے میں خاندان پر مبنی سیاسی جماعتوں کا غلبہ بڑھ رہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ ایک ہی خاندان کے کئی افراد کی سیاست میں شمولیت کے خلاف نہیں ہیں لیکن یہ قابلیت کی بنیاد پرہونا چاہیے۔ملک کیساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھی سیاست خاندانی جاگیر سمجھی جاتی ہے ۔

گو کہ خاندانی سیاست کی بیماری کشمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ جنوبی ایشا کے کئی اور ممالک مثلاً پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی اسی بیماری میں مبتلا نظر آتے ہیں۔یہاں بھی سیاست معدود چند خاندانوں کے گھر کی باندی ہے۔

مثلا ہندوستان جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کانگریس جیسی بڑی جماعت کو گاندھی خاندان کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ بنگلہ دیش میں سیاست سے دو خاندانوں کی بیگمات اگر نکل جائیں تو باقی کیا بچے گا۔ لہٰذا سیاست بس دیوانہ وار ان کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔

اسی طرح پاکستان میں اگر شریف اور زرداری خاندان الگ ہو جائیں ۔ مگر کشمیراس معاملے میں نہ صرف دو ہاتھ آگے نظر آئے گا بلکہ یہاں سیاست کچھ منفرد قسم کی ہے۔

یہاں اقتدار کی خواہش میں راتوں رات یک نفری سیاسی جماعتیں بھی معرض ِ وجود میں آتی ہیں ،بلکہ کشمیر یوں پر کچھ لیڈر مسلط بھی ہوتے ہیں ۔عوام کو یہ لیڈر پسند ہوں یا نہ ہوں ،لیکن اشتہاری مہم ایسے چلائی جاتی ہے ، جیسا کہ سیاست اِ ن کے بغیر ادھوری ہی ہے اور یہی عوام کے سچے ہمدرد ،غمخوار ہیں ۔

یعنی اقتدار کی گلیاں کسی اور محلے کی جانب بھی نکل سکتی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ مخصوص‘ خاندان کی ہمیشہ اقتدار میں رہنے کی خواہش محض خواب ہی رہ جائے۔بہرحال اس صورت حال کا اندازہ تو انتخابات کے موقع پر ہی ہوسکے گا۔

مگر فی الحال زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہاں ہر طرح کی سیاست بند کمروں تک ہی محدود ہے ۔سیاسی لیڈران کہیں کہیں عوامی جلسے بھی کرتے ہیں ،توڑ جوڑ کی باتیں کی جاتی ہیں ،لیکن عوام کی راہنمائی کوئی نہیں کرتا ۔

سب اپنی اپنی سیاسی بساط میں کنویں کے مینڈک بن چکے ہیں یا بھا نت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں ۔

سیاسی میدان میں کس کو آنا چاہئے یا کس کو نہیں آنا چاہئے ،دنیا میں اسکی کوئی ’ریڈ لائن ‘ یعنی (سُرخ لکھیر)نہیں ہے ۔تاہم ضروری ہے کہ سیاست کو تجارت نہیں بلکہ عبادت ہی سمجھا جائے اور نوجوانوں کا رول اہم بنتا ہے کیوں کہ سیاست کے رنگ محل استحصال نوجوانوں کا ہی ہوتا ہے ۔

سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اور آگے آنا لازمی ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img