وادی میں خشک موسمی صورتحال سے میوہ باغات ،فصلوں اور سبزیوں کو نقصا ن ہونے کا بے حدخطرہ لاحق ہے کیونکہ ماہرین موسمیات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امسال مارچ میں 80فیصد کم بارش ہوئی ہے ۔
گزشتہ برس برف بھی بہت کم گرا ہے جس سے یہ خدشہ ہے کہ امسال پانی کی بھی قلت ہو گی ،کیونکہ مارچ سے ہی درجے حرارت میں اضافہ ہونے سے گلیشر تیزی سے پگلنے لگے ہیں اور آنے والے مہینوں میں لوگوں کو زبردست دقتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
جہاں تک میوہ صنعت اور سبزیوں اور فصلوں کا تعلق ہے، پیداوار میں نمایاں فرق آئے گی ۔اس موسمی تبدیلی کے وجوہات کیا ہیں؟ اسے قدرتی آفت تعبیر کیا جائے یا پھر انسان خود اس تبدیلی کیلئے ذمہ دار ہے، یہ ایک الگ موضوع ہے مگر لوگوں کو اب کیا کرنا چاہیے وہ ایک اہم سوال ہے ۔
دیکھا جاتا ہے کہ عام لوگ پانی کی قدر نہیں کرتے ہیں ،وہ پانی کو فضول میں ضائع کرتے ہیں ،ندی نالوں اور چشموں سے بہہ رہے پانی کو گندہ کرتے ہیں ۔
سارا کوڑا کرکٹ اسی پانی میں ڈال دیتے ہیں اسطرح قدرت کے اس انمول تحفے کو ناقدری کرتے ہیں جو سراسر غلط اور غیر اخلاقی عمل ہے ۔
لوگوں کو پانی کی قدر کرنی چاہیے اپنے ارد گرد موجود ندی نالوں اور چشموں کی صفائی عمل میں لانی چاہیے اور یہاں سے بہہ رہے پانی کو زخیرہ کرنا چاہیے، تاکہ ضرورت پڑنے پر اس پانی کو کھیتوں اور باغوں کی سینچائی کیلئے استعمال کیا جا سکے اور مجبوری کی صورت میں پینے کیلئے بھی استعمال کیا جا سکے کیونکہ پرا نے ایام میں ندی نالوں اور چشموںسے ہی بہہ رہے پانی کو کھانے پینے کیلئے براہ راست استعما ل کیا جاتا تھا ۔بزرگوں کا کہنا ہے جو لوگ قدرتی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے ہیں اُن سے وہ نعمتیں چھین لی جاتی ہے ۔
لہٰذا پانی کی قدر کرنا اسکو صاف رکھنا ہر انسان کی اخلاقی ذمہ داری ہے، تاکہ اس قدرتی نعمت میں برکت ہو سکے ۔