یہ پہلا موقع نہیں ہے ،جب ہمسایہ ملک پاکستان میں عمران خان کی سربراہی والی سرکار کو گرانے کیلئے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی بلکہ پاکستان بننے کےساتھ ہی اس طرح کا طریقہ کار اس ملک میں عملایا گیا اور یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے کہ آ ج تک اس ملک میں کسی بھی عوامی سرکار نے اپنی مدت پوری نہیں کی ۔
ہر دور میں یہی دیکھنے کو ملا ہے کہ فوج اور خفیہ اداروں کے دباﺅ میں آکر یہاں سرکاروں کو گرایا گیا اور کئی سیاستدانوں کویاتو تختہ دار پر چڑھایا گیا یا پھر جلا وطن کیا گیا ۔
زولفقار علی بٹو ،لیاقت علی خان ،جنرل ضیاالحق ،بے نظیر بھٹو جیسی شخصیات کا قتل کیا گیا اور پرویز مشرف ،نواز شریف جیسے سیاستدانوں کو ملک بدر کیا گیا ۔جہاں تک موجودہ سرکار کا تعلق ہے عمران خان کا ہمیشہ سے یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ وہ اپنے ملک یعنی پاکستان کو ایک خود دار جمہوری ملک بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا، جو شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ۔
انہوں نے گزشتہ شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا کھل کر اعتراف کیا کہ اس ملک میں خود دار ی کا کہیں وجود ہی نہیں ہے ۔انہوں نے امریکہ امریکہ جیسے سُپر پاور کےخلاف الزام عائد کیا کہ انہوں نے عمران سرکار گرانے کیلئے کروڑ وں ڈالر خرچ کئے ۔
ایسا لگ رہا تھا کہ عمران خان اپنے ملک کے بارے میں بہت کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن وہ بے کس نظر آرہا تھا، اُسکے حرکا ت وسکنات سے یہ ثابت ہو رہا تھا کہ وہ ملک کی فوج کے سامنے مجبور تھا ۔
بہرحال یہ طے ہے کہ عمران خان کی سرکار اب ختم ہو رہی ہے لیکن نئی سرکار کے اثرات پاکستانی عوام پر کیسے اور کیا پڑیں گے یہ دیکھنا باقی ہے ۔
عمران خان کو اب سیاست میں رہنے دیا جائے گا یا پھر اُنکے خلاف بھی حسب سابقہ الزامات عائد کر کے قانونی کارروائی کی جائے گی ۔نئی حکومت جو کہ پاکستانی فوج اور امریکہ کے اشاروں پر کام کر ئیگی و ہ اپنے ہمسایہ ممالک کےساتھ کس طرح کا طریقہ کار عملائے گی یہ آنے والے وقت سے ہی پتہ چلے گا۔
تاہم بھارت کے سیاستدان اور پالیسی ساز پاکستان کے بدلتے سیاسی منظر نامے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ کسی بھی غلط پالیسی کےخلاف مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،پھر بھی یہ ضروری ہے کہ فوج اور دیگر ایجنسیاںمتحرک رہیں کیونکہ پاکستان میںسیاسی کھلبلی سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان ادارے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔