مادری زبان ہماری میراث ،اس زبان سے جس قدر ہم لگاﺅ اور محبت کرینگے اُس قدر ہم اپنی میراث کو محفوظ رکھ سکتے ہیں جسے آج کل ہماری نوجوان پود بے خبر ہے۔
کہتے ہیں جس قوم نے اپنی ماضی کو یاد کیا ،اُسے سبق حاصل کیا وہی مستقبل بہتر بنا سکتی ہے ۔
جہلم کے کنارے عمہ کاک اور صلہ کاک ایک دوسرے سے اسی ماضی پر بات کرتے تھے اور حال پر رو رہے تھے کہ ہمارے بچوں کو اپنے اسلاف سے متعلق نہ کوئی جانکاری ہے اور نہ ہی اُنہیں اس بارے میں والدین اور اُستاتذہ کرام بھی باخبر کرنے کی زحمت گواراہ کرتے ہیں ۔
ہماری مادری زبان میں جہاں مٹھاس اور چاشنی موجود ہے ،وہیں ہمارے بچے بہتر ڈھنگ سے اس زبان کے زریعے سے ہر معاملے کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔
پرانے ایا م میں ماں اپنے بچے کوگود میں لالہ دید اور شیخ العالم ؒکے کلاموں سے ہی تربیت کا آغاز کرتی تھی جو آج کے والدین کو نہ پتہ ہے اور نہ ہی وہ سیکھنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں ۔
اس زبان کو آگے لے جانے میں جہاں سرکار اور انتظامیہ کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے وہیں والدین اور اساتذہ کی اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ نئی نسل کو اپنی مادری زبان سکھانے اور اسکو عام کرنے کیلئے متحرک ہو جائے۔