اتوار, ستمبر ۱۴, ۲۰۲۵
16.7 C
Srinagar

مقصد حیات۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

ہر چیزکا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور پایا جاتا ہے۔ چاہے وہ ہمارے استعمال کا کوئی قلم ہویا ہمارے پہنے کے کپڑے، دنیا میں پائی جانے والی ہر چیز اپنے اندر کوئی نہ کوئی مقصد ضرور رکھتی ہے! اللہ تعالی جو ہر چیز کا جاننے والا اور ہر شیئی کو دیکھنے والا ہے، ہم کو پیدا کیا اور اس دنیا میں ہماری تخلیق اور ہمارے بقا کا ایک مقصد متعین کیا ہے۔

اگر آپ کسی سے کھانے کا مقصد پوچھیں کہ وہ کیوں کھاتے ہیں، تو ہر کوئی یہی کہے گا کہ کھانے کا جسم کو غذائیت پہنچانا کیونکہ یہ زندگی کی بقا کا ضامن ہوتا ہے۔

اگر آپ کسی سے یہ پوچھیں کہ وہ کام کیوں کرتے ہیں؟ وہ یہی کہیں گے کہ خود کی بقاءاور اپنے خاندان کی ضروریات کی تکمیل کے لئے کام کرنا ضروری ہے۔

اگر ہم کسی سے یہ استفسار کریں کہ وہ سوتے کیوں ہیں؟ وہ کیوں کپڑے دھوتے ہیں؟ وہ کیوں کپڑے پہنتے ہیں؟ وغیرہ، تو ان سب کے مناسب وجوہات کے ساتھ یہی جواب ہوں گے کہ یہ انسانی زندگی کی عام ضروریات ہیں۔دنیا کی ہر چیز کسی نہ کسی مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے۔

اللہ تعالی نے دنیا میں کوئی بھی چیز بے مقصد اور بے معنی پیدا نہیں فرمائی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خاص مقصد ہے اور قدرت ان سے انہیں مقاصد کو پورا کرتی ہے۔

زمین کی نپلوں سے لے کر آسمان کی صورت تک کسی نہ کسی مقصد کے ساتھ منسلک ہیں۔

تخلیق کائنات کے مقصد کا سب سے روشن پہلو یہی ہے کہ اللہ تعالی نے کسی چیز کو بے مقصد نہیں بنایا۔

تخلیق کائنات کا سب سے بڑا اہم اور اصل مقصد اللہ تعالی کی ذات و صفات کی معرفت اور اس پر کامل ایمان رکھنا ہے اور جب اللہ تعالی کا عرفان حاصل ہو جائے تو یہ مقصد پورا ہو گیا کہ آپ کائنات کی وہ شے اپنے وجود میں کامل ہو گی۔ پھر مخلوقات میں جو درجات ہیں ان میں بھی مقصد نمایاں ہے۔

ان میں ہر ایک کا مقصد جداگانہ ہے۔ فرشتوں کو بے نفس بنا کر انہیں صرف اپنی عبادت پر مامور فرما دیا اور دیگر ضروریات سے محفوظ کر دیا۔

اور تمام بشری تقاضے ان سے الگ کر دیئے۔ جانوروں کو پیدا کیا تو انہیں عقل سے خالی کرکے صرف نفس کا خوگر بنایا۔ اب ان پر کوئی شرعی احکام یا امرونہی کا حکم نافذ نہیں۔ مگر ان سوجن کو یہی خصلت بھی دیں اور فرشتوں کا شعور بھی دیا۔ اس لئے اس کے ڈھاٹے ملکوتی خصائل سے ملتے ہیں اور دوسری طرف بہمانا صفات سے۔

اس کو اس منزل پر کھڑا کیا جو انتہائی زیادہ آزمائشی ہے۔ انہیں تکلیف شرعی بھی دی اور لذت نفس بھی عطا کیا۔

اب جن و انس دونوں خصلتوں کے حامل ٹھہرے۔ اگر ملکوتی صفات غالب آجائیں تو اس وقت انسان فرشتوں کا ہم نشیں ہیں اور اگر بہمانہ خصائل غالب آجائیں تو اس وقت وہ جانور ہے۔

معلوم ہوا کہ مقصد انسان صرف عبادت الہی ہے۔ انسان کا مقصد حیات بڑا مبارک عظیم اور اہم ہے۔ اب چونکہ یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کا مقصد بہت اہم اور مبارک ہے تو اس لیے ہر انسان کو چاہیئے کہ وہ دنیاوی کاموں سے برتر سب سے پہلے اللہ کی معرفت اور عبادت کو سب سے پہلے رکھے۔

اس کی زندگی کا سب سے اہم مقصد اور بنیادی مقصد اللہ کی عبادت ہونی چاہیے۔ کیونکہ باقی دنیاوی کام تو سب چلتے رہتے ہیں۔

اگر انسان اللہ کا قرب پا گیا تو سمجھو وہ مقصد حیات پا گیا۔موسم بہار کی مانند اب عبادتوں کا موسم بھی رمضان المبارک کی شکل میں دستک دینے جارہا ہے ۔

عبادت کے مہینے آمد آمد اور ہم سب کی تیاریاں ،ہمیں زندگی کے اصل مقصد سے روشناس اور ہم آہنگ کررہی ہیں ۔کیوں نہ مقصد حیات کو ہم اپنا شعار بنائیں ۔

 

 

Popular Categories

spot_imgspot_img