بڑھتا ہوا درجہ حرارت

بڑھتا ہوا درجہ حرارت

تحریر:شوکت ساحل

سنہ2021کے ماہ ِ اگست میں مرکزی ’سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت‘ نے اپنی ایک رپور ٹ میں بتایا تھا کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور کم موسم سرما کی بارش وادی زانسکر لداخ میں گلیشئرز کے پیچھے ہٹنے کا سبب بن رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پینس لونگپا گلیشیر (پی جی) ، جو زانسکر لداخ میں واقع ہے ، پیچھے ہٹ رہا ہے اور ایک حالیہ تحقیق نے اس پسپائی کو درجہ حرارت میں اضافے اور سردیوں کے دوران بارش میں کمی کی وجہ قرار دیا ہے۔

 

 

2015 سے حکومت ہند کے محکمہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تحت ایک خود مختار ادارہ، دہرادون میں قائم ’وادیہ انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیئن جیولوجی‘ (ڈبلیو آئی ایچ جی)، گلیشیالوجی ، یعنی گلیشیر ہیلتھ (ماس بیلنس) مانیٹرنگ، ڈائنامکس، اخراج، ماضی کے موسمی حالات ، مستقبل میں موسمیاتی تبدیلی کی قیاس آرائی اور اس خطے کے گلیشیئرز پر اس کے اثرات کے مختلف پہلوو¿ں پر کام کر رہا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ہمالیہ کے کم دریافت شدہ علاقے یعنی زانسکار ، لداخ کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔گلیشیئرز کے لیے فیلڈ مشاہدات کی بنیاد پر اسٹیک نیٹ ورکنگ کے ذریعے جمع کیا گیا بڑے پیمانے پر بیلنس (بانس سے بنا ہوا ستون، گلیشیر کی سطح پر بڑے پیمانے پر توازن کی پیمائش کے لیے بھاپ ڈرل کا استعمال کرتے ہوئے نصب)2016سے2019 سے قائم ہے اور وہ زانسکرلداخ میں واقع پینس لونگپا گلیشیر (پی جی) ، جو کے ماضی اور حال کے ردعمل کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔

4سالوں (2015سے2019) کے فیلڈ مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ گلیشیر اب3+6.7 ایم اے۔1 کی اوسط شرح سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔

جریدے ریجنل انوائرمینٹل چینج میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ، ٹیم پینس لونگپا گلیشیر کے مشاہدہ شدہ مندی کے رجحانات کو درجہ حرارت میں اضافے اور سردیوں کے دوران بارش میں کمی کی وجہ قرار دیتی ہے۔یہ مطالعہ بڑے پیمانے پر توازن اور گلیشیر کے اختتامی نقطہ کے پسپائی پر خاص طور پر موسم گرما میں ملبے کے ڈھکنے کے اہم اثر کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔

مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عالمی رجحان کے مطابق ہوا کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پگھلنے کی رفتارمیں اضافہ ہوگا اور یہ ممکن ہے کہ اونچائی پر موسم گرما کے دورانیے کی بارش، برف سے بارش میں تبدیل ہوجائے اور اس سے موسم گرما اور موسم سرما متاثر ہوسکتا ہے۔

سنہ2021میں بی بی سی اردو میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق بی بی سی کی ایک تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے ہر برس ایسے انتہائی گرم دنوں کی تعداد جب درجہ حرارت50 سیلسیئس ڈگری تک پہنچ جاتا ہے، اب دگنی ہو چکی ہے۔

ایسے گرم درجہ حرارت اب دنیا کے زیادہ سے زیادہ علاقوں میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مشاہدے میں آئے ہیں اور یہ انسانی صحت اور ہمارے رہن سہن کے انداز کے لیے چیلنجز پیش کر رہے ہیں۔گذشتہ چار دہائیوں میں سے ہر ایک میں50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت والے دنوں کی کل تعداد میں اضافہ ہوا۔

سنہ1980 اور سنہ2009 کے درمیان سالانہ اوسطاً 14 دن50 سیلسیئس درجہ حرارت ہوتا تھا، جو سنہ 2010 اور سنہ2019 کے درمیان سالانہ 26 دن تک بڑھ گیا ہے۔اسی عرصے کے دوران، 45 سیلسیس ڈگری درجہ حرارت اور اس سے اوپر کے درجہ حرارت والے اوسطاً دنوں کا سال میں دو ہفتے کا اضافہ ہو گیا ہے۔

معروف ماحولیاتی سائنسدان ڈاکٹر فریڈرائک اوٹو کا کہنا ہے کہ ’جیواشم ایندھن (فوسِل فیول) کے استعمال کو اس اضافہ کا100 فیصد ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔

‘جیسا کہ پوری دنیا گرم ہو رہی ہے، انتہائی درجہ حرارت زیادہ شدید ہو جاتا ہے۔شدید گرمی انسانی زندگی اور فطرت کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے اور عمارتوں، سڑکوں اور بجلی کے نظام کو خراب کر سکتی ہے۔ڈاکٹر لی نے خبردار کیا کہ زہریلی گیسوں کے مسلسل اخراج اور عمل کی کمی کی وجہ سے، نہ صرف شدید گرمی کے واقعات زیادہ شدید ہوتے جائیں گے بلکہ یہ زیادہ تکرار کے ساتھ وقوع پذیر ہوں گے اور ہنگامی ردعمل اور بازیابی زیادہ مشکل ہو جائے گی۔

‘بی بی سی کے تجزیے سے یہ بھی پتہ چلا کہ حالیہ دہائی میں سنہ 1980 سے سنہ 2009 تک طویل مدتی اوسط کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت0.5 سیلسیئس بڑھا۔

لیکن یہ اضافہ دنیا بھر میں یکساں طور پر محسوس نہیں کیا گیا، مشرقی یورپ، جنوبی افریقہ اور برازیل میں کچھ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں ایک سیلسیئس درجہ حرارت کا اضافہ دیکھا گیا، اور آرکٹک اور مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں میں دو سیلسیئس درجہ حرارت کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔موسمی تبدیلی وتغیر کے نتیجے میں وادی بھی متاثر ہورہی ہے۔

مارچ کے مہینے میں مئی ۔جون کی گرمی کا احساس اور درجہ حرارت میں اضافہ آنے والے چیلنجزسے متعلق خطرے کی گھنٹی ہے ۔

موسمی تبدیلی کے منفی اثرارت سے نمٹنے کے لئے ہر ایک فرد کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا اور حکام پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.