تحریر:شوکت ساحل
وادی کشمیر میں موسم ِ بہار نے دستک دی ہے ۔بادام کے درختوں پر رنگ بہ رنگی شگوفے پھوٹنے لگے ہیں ۔
قدرتی نظار دلفریب ہورہے ہیں ۔سیاح اِن نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لئے واردِ کشمیر بھی ہورہے ہیں ۔
تاہم تعداد انتہائی کم ہے ۔زبرون کی پہاڑی کے دامن میں واقع شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کنارے پر واقع ایشیاءکے سب سے بڑے باغ ،باغ گل لالہ کو کھولنے کی تیاریاں بھی جاری ہیں ۔
بازاروں میں پیڑ پودے ،مختلف اقسام کی پنیری ،پھول اور سبزیوں کے بیجوں کی خرید وفروخت کا سیزن بھی اپنے جوبن پر ہے ۔وادی کے مختلف اضلاع سے لوگ شہر کے قلب لالچوک کا رخ کررہے ہیں ،جہاں مخصوص فٹ پاتھ بازار میں لوگ زرعی اور باغبانی چیزوں کی خریداری کررہے ہیں ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو باغبانی ایک زمانے میں بہت معروف تھی۔پھر وقت کے ساتھ یہ شعور دھندلاتا گیا۔
آج جب ماحول دوست مکانات کی تعمیر کا چرچا ہے کہ بڑھتی آلودگی کو روکنے کے لیے فطرت سے ہم آہنگ مکانات بنائے جائیں تو ایک بار پھر لوگوں میں گھریلو باغبانی کے حوالے سے شعور اور شوق میں اضافہ ہورہا ہے۔
ماہرین زراعت کہتے ہیں کہ پودوں کو لگانے یا ان کو کاشت کرنے کے طریقے کو باغبانی کہا جاتا ہے۔اس میں سبزیوں اور پھلوں کے پودے، پھولوں کے پودے جڑوں والی سبزیاں، ادویاتی پودے، صحرائی پودے اور درخت وغیرہ شامل ہیں۔
کچھ پودے گھر کے اندر لگائے جاتے ہیں انھیں زیادہ دھوپ کی ضرورت نہیں ہوتی وہ انڈور پلانٹ کہلاتے ہیں۔
جنھیں سورج کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے وہ آﺅٹ ڈور پلانٹ کہلاتے ہیں۔سبزیاں یا پھل ہم گھر میں خود اگائیں گے تو وہ صحت بخش بھی ہوں گی ،ساتھ ساتھ گھر کے بجٹ پر بھی دباﺅ کم پڑے گا۔
سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسانی صحت بیماریوں کو شکار نہیں ہوگی۔یہ ایک بہترین مشغلہ بھی ہے۔
گھر میں سبزیاں اگی ہونے کی صورت میں جب چاہیں آسانی سے میسر آجاتی ہیں جو کہ نہ صرف تازہ ہوتی ہیں بلکہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہوتی ہیں۔
باغبانی انسان کے ذہنی اور جسمانی نظام کو درست رکھتی ہے۔ مختلف کاموں کی وجہ سے جسم متحرک رہتا ہے جو کیلوریز کو جلانے کا سبب بن کر جسم انسانی کو سلم اور اسمارٹ رکھتا ہے۔
باغبانی اعصابی دباﺅ کو ختم کرتی ہے اس طرح چڑچڑے افراد کے لئے فائدہ مند ہے وہ بھی پودوں کے پاس خوشی محسوس کرتے ہیں آس پڑوس کے لوگوں میں سبزیاں دینے سے تعلقات مزید مستحکم ہوتے ہیں۔
باغبانی کا آغاز چھوٹی سے چھوٹی جگہ سے آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ آپ کے پاس کیاری یا کچی زمین کا ٹکڑا نہیں ہے تو گملوں میں بھی آسانی کے ساتھ پودے اگائے جاسکتے ہیں۔
آپ اپارٹمنٹس یا کسی چھوٹے سے فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں تو پھر بھی آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
مرچ، ٹماٹر، پودینہ، دھنیاں، تو ہر گھر میں وافر مقدار میں استعمال ہوتا ہے ان کے پودے زیادہ رکھے جائیں۔
باقی لہسن، پیاز کے لئے جگہ زیادہ ہے تو اچھی بات ہے لیکن گملے میں ان کی مقدار ایک گھر کی ضرورت تو پوری نہیں کرے گی لیکن پھر بھی گھر میں اگانے سے ان کے سبز پتوں کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔
مرچ، ٹماٹر، سلادپتہ، کے تین سے چار پودے کافی ہیں پودینہ کو دو بڑے کنٹینر میں لگائیں۔ مارکیٹ سے خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔
آپ اگر سرکاری یا نجی ملازمت کرتے ہیں ،تو صبح وشام چندگھنٹے اس صحت مند مشغلہ کے لئے نکالنے ہیں جبکہ گھروں کے صحنوں میں ہریالی رہنے سے آپ نفسیاتی دباﺅ سے بھی دور رہ سکتے ہیں ۔سوچ کو وسیع کریں اور کچن گارڈن کے مشغلہ کو اپنائیں ۔