انہدامی کارروائی یا۔۔۔۔۔۔!

انہدامی کارروائی یا۔۔۔۔۔۔!

تحریر:شوکت ساحل

دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا مقام ہوگا ،جہاںغیر قانونی طور تعمیرات کھڑی نہ کی جاتی ہوں ۔غیر قانونی سے مراد یہ ہے کہ تعمیرات کے لئے آپ کو کئی محکمہ جات کی منظوری ہوتی ہے ،لیکن بعض لوگ رشوت دے کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ،کیوں کہ اُن کا ساراکام کورپشن کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے ۔

جموں وکشمیر میں بھی جس اور نظر ڈالی جائے تو بے ہنگم تعمیرات کا جنگل نظر آتا ہے ۔

غیر قانونی رہائشی کالونیاں انتظامیہ کی ناک کے نیچے تعمیر ہوتی ہیں ،بڑے بڑے شاپنگ مالز،شیش محل اور آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں عدالتی احکامات کی سریحاً خلاف ورزی کرکے راتوں رات تعمیر کی جاتی ہیں ۔لمحئہ فکریہ ! تو یہ ہے کہ سیاحتی مقامات کیساتھ ساتھ جنگلات کو بھی بخشا نہیں جاتا ہے ۔

یہ سب رشوت ،اثر رسوخ اور ہم ہیں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔در اصل گزشتہ کئی ہفتوں سے ’لیک کنزر ویشن اینڈ منیجمنٹ اتھارٹی ‘ کی انفورس منٹ ونگ نے بڑے پیمانے پر انہدامی کارروائی شروع کر رکھی ہے ۔

غیر قانونی قبضے چھڑائے جارہے ہیں ،کنکریٹ عمارتیں منہدم کرکے زمین بوس کی جارہی ہیں ۔

صرف اسی محکمے کی انفورسمنٹ کی ونگ ہی متحرک نہیں ہے بلکہ دیگر محکموں جس میں سرینگر میونسپل کارپوریشن بھی شامل ہے ۔

غیر قانونی بے ہنگم تعمیرات کو منہدم کرنا اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مرتکب افراد کے خلاف کارروائیاں عمل میں لانا قابل ستائش ہی نہیں حوصلہ افزاءبھی ہیں ۔تاہم انہدامی کارروائیوں کا نزلہ غریب اور متوسطہ گھرانوں پر ہی گرایا جاتا ہے جبکہ مال داروں ،سرمایہ داروں ،رشوت دے کر اپنا الو سیدھا کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے بلکہ اُنکے تعمیرات کاربن تو اہم شخصیات کے ہاتھوں ہی کاٹے جاتے ہیں ۔

انہدامی کارروائی کے نام پر غریب اور متوسطہ گھرانوں کے سر سے چھت چھینی جاتی ہے ۔مرکزی حکومت نے چھت سے محروم کنبوں کے لئے ایک اسکیم ’وزیر اعظم آواس یوجنا‘ متعارف کی ہے ۔

اس اسکیم کے تحت مستحق کنبوں کو پکے مکانوں کی سہولیت دی جاتی ہے ۔جموں وکشمیر میں سیکڑوں مستحق گھرانوں کو اب تک یہ سہولیت فراہم کی گئی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ ایک طرف حکومت بے گھر کنبوں کے لئے خوابوں کے آشیانے تعمیر کرتی ہے ،تو دوسری طرف ایسے ہی افراد کے سر چھت چھینی جاتی ہے ،ایسا کیوں ؟۔ہم انہدامی کارروائیوں کو غلط نہیں قرار دے رہے ہیں اور ناہی غیر قانونی تعمیرات کو جواز بخش رہے ہیں ۔انہدامی کارروائی کرکے غریب اور متوسطہ گھرانوں بے گھر کرنا سرکاری کی دور رس پالیسی نہیں کہلائی جاسکتی ہے ۔

غریب اور متوسطہ گھرانوں کے لئے اجازت نامہ کو آسان بنا نا ہوگا ،تاکہ اُن پر انہدامی کارروائی کا نزلہ نہ گرے ۔سرکار کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ دو دو منزلہ عمارتیں کیسے کھڑی کی جاتی ہیں ،کس کے آشر واد سے یہ کام انجام دئے جاتے ہیں ،محرکات کیا ہیں ؟،جب یہ عمارتیں زیر تعمیر ہوتی ہیں ،تب انہدامی ٹیمیں یا محکمہ جات کہاں ہوتے ہیں ؟کہیں ایسا تو نہیں انہدامی کارروائی کے نام رشوت ستانی کا روبار یا بازار تو گرم نہیں ۔آڈٹ یعنی احتساب کی ضرورت ہے ۔

کہیں انہدامی کارروائیوں کے نام پر سرکار کی ہی آنکھوں میں دھول تو نہیں جھونکی جارہی ہے ۔

وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع کے گندرہمان ہران علاقہ میں انہدامی کارروائی کے دوران ایک نوجوان نے خود سوزی کی کوشش کی ،جسکے نتیجے میں یہاں سخت تشویش کی لہردوڑ گئی ،جب کہ خودسوزی کی کوشش کرنے والے نوجوان کوصورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ منتقل کیاگیا۔گیارہ روز تک اسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلاءرہنے کے بعد یہ نوجوان زندگی کی جنگ ہار گیا ۔

مذکورہ نوجوان یہ اقدام کیوں اٹھایا ؟، ممکنہ طوراُس نے انہدامی کارروائی کو روکنے کے لئے ایسا کیا ہو،ایسا واقعہ پیش کیوں آیا ؟بلڈنگ تیار تھی ،اُس سے قبل انہدامی ٹیم یا انفورسمنٹ ونگ کہاں تھی ؟کیا یہ تحقیقات طلب معاملہ نہیں ،یا خاموشی ہی ہر مرض کی دوا ہے ۔

خاموشی نہیں بلکہ سوچ کو بدل کر انہدامی کارروائیوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے ،پہلے کیوں نہیں بعد میں کیوں ؟۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.