سننے اور سنا نے کا سنہری دور ختم ۔۔۔۔۔

سننے اور سنا نے کا سنہری دور ختم ۔۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

ہم دانستہ یا غیر دانستہ طور طور پر والدین، بزرگوں اور خاندانی نظام سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہم نے اپنے آپ کو اس قدر مصروف کرلیا ہے کہ والدین اور بزرگوں کیلئے وقت نکالنا بہت مشکل لگتا ہے۔

ابھی ہمیں یہ احساس نہیں ہے کہ ہم کتنی بڑی نعمت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ یہ ایسی نعمت ہے جسے ہم ڈھونڈنے نکلیں تو شاید کبھی نہ پاسکیں۔دادا۔ دادی، نانا ۔نانی ایسے رشتے ہیں جو محبت، خلوص اور اپنائیت سے بھرے ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہم سے کتنوں نے اپنے دادا۔دادی اور نانا ۔

نانی سے کہانیاں سنی ہیں ،میں نے تو سنی ہیں،دادا ۔دادی یا نانا ۔نانی سے نہیں البتہ دادا ماما سے، بہت سارے قصے اور کہانیاں سنی ہیں ۔

اس میں تو ایک دلچسپ قصہ میرے والد صاحب سے متعلق بھی تھا ،وقت اور تحریر کی قید کی وجہ سے میں وہ قصہ نہیں سنا سکتا ،البتہ آج کے موضوع پر بات کرنی کی ضرور کوشش کروں گا ۔

کوئی بھی معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے۔ بالکل اسی طرح خاندان بھی افراد سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ افراد ایک ہی چھت تلے مختلف رشتوں میں جڑ ے رہ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔

ہر ماں باپ کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا گھرانہ خوشحال ہو، جس میں ان کے بچے پیار و محبت سے بھر پور زندگی گزاریں۔ دنیا کی کڑی دھوپ، چھاﺅں ہو یا ماحول کی سردی، گرمی، وہ سائبان ان کے بچوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ ثابت ہو۔ اس کی بنیاد گھر کے ہر فرد کے درمیان اتحاد و اتفاق پر ہوتی ہے۔

بنیاد اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک سب خلوص اور اپنائیت کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت و احترام کرتے ہیں۔ لیکن اب معاشرہ دو خاندانی نظاموں میں بٹ چکا ہے۔

ایک اتفاق و اتحاد سے عاری خاندان، جسے عام زبان میں اکائی خاندان کانام دیا جاتا ہے۔ اس نے اپنے خاندانی دائرے کی خوشی اور غم سے دور اپنی ایک الگ دنیا بسائی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے خاندانی دائرے کے کسی بھی مسئلے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

عموماً اسے آزاد زندگی سمجھا جاتا ہے، جس کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔دوسرا مشترکہ خاندانی نظام ،لیکن اس میں بھی سوشل میڈیا اور سمارٹ فونز نے خلیج پیدا کرنے کیساتھ ساتھ خاندا نی مٹھاس ومحبت میں کٹھاس اور نفرت کی دیوار کھڑی کی ۔

کئی سال پہلے کا تصور کیا جائے تو اس وقت سوشل میڈیا کا وجود تک نہیں تھا۔ اس دور میں عوام الناس قصے سننے اور سنانے کا ذوق رکھتے تھے اور اپنا زیادہ تر وقت کتابوں کا مطالعہ کرنے میں صرف کرتے تھے یا کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے، سب لوگ میل ملاپ سے رہتے تھے، چند عزیز و اقارب جو دوردراز علاقوں میں مقیم تھے ان کے ساتھ رابطہ خط و کتابت کی تکنیک سے کیا جاتا تھا اور مدتوں بعد خط و کتابت کے وسیلے سے ہی خیروعافیت کا جواب بھی موصول ہوتا تھا۔

بحرحال! آہستہ آہستہ وقت کا پہیہ گھومنے لگا۔ بالآخر ابتداءمیں ٹیلی فون ایجاد ہوا، پھر موبائل دریافت ہوا، اسکے بعد سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی فراوانی وجود میں آئی اس طرح سوشل میڈیا نے دھیرے دھیرے زمین پر اپنے بھرپور قدم جما لیئے۔

سوشل میڈیا روز بہ روز اپنے فن کے مطابق نئے سے نئے ڈیزائن پیش کرتا گیا اور لوگ سوشل میڈیا کی رنگا رنگی کی طرف کھینچتے چلے گئے۔آج پوری دنیا میں سوشل میڈیا نے دھوم مچائی ہوئی ہے۔

آج سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کا اہم کردار ہے۔سوشل میڈیا نے جہاں اپنے فن کے ذریعے سے مثبت پہلووں کی آگاہی فراہم کی ہے وہیں اس کے ذریعے منفی اثرات بھی ہماری زندگی میں مرتب ہوئے ہیں۔

نوجوان نسل اپنے دادا ۔دادی اور نانا ۔نانی کی شفقت ،محبت اور قصے و کہانیوں سے محروم ہورہی ہے ۔

ان کا بیشتر وقت حتیٰ کہ کھانا تب تک حلق سے نیچے نہیں اتر تا ہے ،جب تک وہ سمارٹ فون پر ویڈیوز نہ دیکھیں گے ،یہ صرف ایک گھر یا ایک کنبے کا مسئلہ نہیں بلکہ پورا معاشرہ اس کی سحر انگیزی میں جھکڑ چکا ہے۔

سننے اور سنانے کا سنہری دور ختم ہوچکا ہے ،کیا اسکی واپسی یا احیائے نو ممکن ہے ،جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں اپنی سوچ کو مثبت رکھنا ہوگا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.