سماجی سفیر۔۔۔

سماجی سفیر۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

بچوں کا مستقبل سنوارنے میں تعلیم اور مختلف افراد کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ تعلیم کی اہمیت اور افادیت ہر دوریا عہد میں مسلمہ رہی ہے۔

اسلام میں علم کی حصولیابی کو لازمی قرار دیا گیا ہے، کیونکہ بغیر علم کے مذہبی اعمال کی اہمیت جاتی رہتی ہے۔ سماج میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے مختلف افراد کو الگ الگ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

اس ٹیم میں سے کسی بھی فرد کی طرف سے کاہلی، غفلت، بے احتیاطی اور غیر سنجیدگی بچے کو تعلیمی راہ سے غلط راستہ پر ڈال سکتی ہے، جس سے وہ بربادی کی طر ف جاسکتا ہے اور اس کی عادات واطوار خراب ہوسکتے ہیں، جس سے اس کے مستقبل کا ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔

بچوںکے مستقبل کی رہنمائی کیلئے ٹیم کے جو لوگ اہم کردار ادا کرتے ہیں ان میں والدین اور سرپرست،درس وتدریس سے وابستہ اساتذہ، تعلیمی اداروں کی انتظامیہ، ریاستی سرکاریں اور مرکزی سرکار کی انتظامیہ شامل ہے۔

والدین اور سرپرست کا معاملہ یہ ہے کہ بچے کی پیدائش سے ہی ان کا کردار شروع ہوجاتا ہے۔ حضرت محمدﷺنے فرمایا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعدان کاخوبصورت نام رکھنا چاہئے، انھیں پاکیزگی اور پرہیزگاری کا درس دینا چاہئے، ان کیلئے بہترین تعلیم گاہ ( اسکول یا مدرسہ) کا انتخاب کرنا چاہئے اور سرپرستوں کا بڑا کام یہ بھی ہے کہ گھر میں وہ بچوںکے تمام کاموں پر نگاہ رکھیں۔

بچوں کو مختلف مذاہب اور انسانی اخلاق وعادات سکھایاجانا چاہئے۔اُنہیں اپنے ملک اور تاریخی شخصیات کے متعلق بتایا جانا چاہئے، اُنہیں اچھے اور بااخلاق دوستوں کی رہنمائی کرنی چاہئے کیوں کہ بہترین ساتھی ”پرفیوم“ یعنی(عطر) بیچنے والوں کی طرح ہوتے ہیں، اچھے ساتھی کم ازکم اپنی خوشبو بکھیریں گے جبکہ غلط ساتھی اپنے ساتھیوں کو سوائے گردوغباراور دھویں کے کچھ نہیں دے سکتے۔

بچوں کی زندگی میں اساتذہ کا رول انتہائی اہم ہوتا ہے۔ یہ انتہائی حساس اورپاکیزہ گروپ ہوتا ہے جس کی محنت سے بچے کامستقبل فروغ پاتاہے، حتی کہ معمولی خلفشار اور عدم سنجیدگی بچوں کو نقصان پہنچاسکتی ہے، اساتذہ کو چاہئے کہ وہ بچوں کو کام دینے سے قبل زیادہ سے زیادہ احتیاطی مشق کریں کیونکہ یہی چیز بچوں کی جسمانی عمارت بنانے میں معاون ہوگی۔

تنوع ایک فطری امر ہے اور اس کو قبول کرنا لازم ہے۔ ہمیں افکار، نقطہ نظر اور تعبیر کے تنوع کو بطور خاص پیش نظر رکھنا چاہیے اور اساتذہ کہنے کی حد تک نہیں اپنے عمل سے اس حقیقت کو ثابت کریں۔

استاد پہلے خود فرقہ واریت کی سطح سے بلند ہو کر سوچے گا تبھی ایسا ممکن ہے۔ سماجی اور مذہبی جذبات میں توازن پیدا کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ان دونوں معاملات میں آدمی بڑا احساس ہوتا ہے۔

کسی بھی قوم کا ادب، اندازِ زندگی، طریقہ، معاشرت اور تعلیمی حالت اقوام عالم میں اس کی درجہ بندی کا سبب بنتے ہیں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کا سماجی فریضہ ہے کہ وہ اپنے نونہالوں اور نوجوانوں کو بہتر معیار زندگی کے لوازمات سے فیض یاب کریں۔

ملک کی معاصر سماجی و معاشرتی فضا کے پیش نظر اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوان طلبہ کی ازسرنو ذہنی تشکیل کے لئے یونیورسٹی کورسز میں امن و استحکام اور سماجی و معاشرتی شعور کو بھی سلیبس(نصاب ) کا حصہ بنائیں کیوں کہ یہی نسل ہمارے قومی مسائل کا حل تلاش کرے گی۔

استاد کا فریضہ ہے کہ اس کے طالب علموں کے ذہنوں میں معاشرتی امن اور سماجی استحکام جیسے اعلیٰ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے مثالی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تا کہ وہ نہ صرف اپنی زندگیاں سنوارنے کے قابل ہوں بلکہ سماجی سفیر کی حیثیت سے اپنے ساتھی انسانوں کی زندگیوں کو بھی آسان بنا سکیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.