بدھ, مئی ۱۴, ۲۰۲۵
14.5 C
Srinagar

نوجوان ،تعلیم اور روزگار۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

قوموں اور ملکوں کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کی اہمیت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔

تاہم وقت کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر تعلیم سے بھی خاطرخواہ فوائد حاصل نہیں کئے جاسکتے ہیں ،اسی لئے ارباب نظر حسب ضرورت نصاب تعلیم کے بدلنے کی وکالت کرتے ہیں اور دنیا میں ہر جگہ حسب ضرورت نصاب تعلیم میں جزوی یا کلی تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔

ملک ہندوستان میں بھی نئی قومی تعلیمی پالیسی کی ترتیب منظر عام پر آچکی ہے جسے( نئی تعلیمی پالیسی2020) کا نام دیاگیاہے ۔

اس نئی قومی تعلیمی پالیسی کو مورخہ 29 جولائی 2020 کو مرکزی کابینہ کی منظوری ملی۔موجودہ حکومت کی طرف سے و ضع کی گئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 جس کا شدت سے انتظار تھا ،1986 کی تعلیمی پالیسی کی جگہ لے گی جس میں بعد میں 1992 میں ترمیم بھی کی گئی۔

نئی قومی پالیسی ایک سخت مشاورتی عمل سے گزرنے کے بعد بنائی گئی ہے۔ اس کے لئے 250 لاکھ گرام پنچایتوں ،6600 بلاکس ، 6000 شہری بلدیاتی اداروں ، اور600 اضلاع سے2 لاکھ سے زیادہ تجاویز حاصل کی گئیں۔

اس سے قبل ، مئی2016 میں ، ٹی ایس آر سبرامنیم کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے نئی تعلیمی پالیسی کے ارتقا کے لئے ضروری ہدایات مہیا کی تھیں۔

جون 2017 میں ، ڈاکٹر کے کستوری رنگن کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے قومی تعلیمی پالیسی پر توجہ مرکوز کی۔ پالیسی کا مسودہ 31مئی2019 کو پیش کیا گیا۔

اس پالیسی کو عام طور پر پذیرائی ملی ہے۔تعلیم کی اہمیت اور خاص طور پر نئی قومی تعلیمی پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے قومی اردو اور سندھی کونسل کے ڈائریکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی ہندوستان کی تقدیر اور تصویر بدل دے گی کیوں کہ اس پالیسی میں ہندوستان کی تمام زبانوں کی ترویج وترقی اور ان کے احیا کی تجویز رکھی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا ہر طالب علم پانچویں کلاس تک لازمی اور آٹھویں کلاس تک اختیاری طور پر مادری زبان میں تعلیم حاصل کرپائے گا۔

اس کے علاوہ کسی بھی تعلیمی سطح پر اپنی مادری زبان کو ایک مضمون کے طور پر وہ اختیار کر سکتا ہے۔

ساتھ ہی اس پالیسی میں یہ تجویز بھی ہے کہ تمام ریاستوں میں اور مرکز میں بھی تمام زبانوں کے فروغ کے لیے اکیڈمیاں قائم کی جائیں گی۔

شیخ عقیل نے کہا کہ دراصل وزیر اعظم نریندر مودی کا خیال ہے کہ کوئی بھی ترقی پسند ملک اگر مادری زبان کا تحفظ نہیں کرے گا تو اس ملک کا زوال لازمی ہے۔

کیوں کہ آواز سے شبد اور شبدوں سے بھاشا یا زبان کی تخلیق ہوتی ہے اور آواز ہی اس کائنات کی اصل اور جوہر ہے، اس لیے تمام زبانیں قابل احترام ہیں اور مودی سرکار سبھی زبانوں کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ پروفیسر عقیل نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی میں تعلیم میں تنوع پیدا کیا گیا ہے جس سے تعلیمی نظام کی توسیع ہوگی اور نئے نئے کورس اور سبجیکٹ کو متعارف کیا جائے گا، جس سے روزگار اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ہندوستان میں کوئی بھی نوجوان بے روزگار نہیں رہے گا۔

تعلیم اور روزگار، دو مختلف چیزیں ہونے کے باوجود ان میں ایک خصوصی تعلق پایا جاتا ہے،لیکن ہمارے ہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملازمت نہ دینے والی تعلیم کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ عموماً لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ایسی تعلیم حاصل کی جائے جو اعلیٰ سے اعلیٰ تر ملازمت دلوا سکے۔

اس مقصد کے لیے اکثر فطری رجحانات کا گلا گھوٹ دیا جاتا ہے اور جیسے تیسے مطلوبہ تعلیمی معیار حاصل کیا جاتا ہے تاکہ اصل منشا حاصل ہوسکے۔

اس کے بعد بھی اگر کسی وجہ سے روزگار اور ملازمت کے حوالے سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے تو نتیجہ شدید مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے اور یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا فائدہ ہوا اتنا پڑھنے کا؟ یا جب یہ ہی کام کرنا تھا تو پھر خوامخواہ تعلیم میں وقت کیوں ضایع کیا؟ایسی صورت حال کی وجہ ظاہر ہے، یہ طے شدہ سوچ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمیں معاشی مسائل سے چھٹکارا مل جائے گا یا بہتر ملازمت مل سکے گی۔

تعلیم ہمیں برے اور اچھے کی تمیض سکھاتی ہے ،تعلیم ہمیں جاہل سے انسان بناتی ہے ۔نئی پود کو تعلیم حاصل کرنے چاہیے ،تاہم مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے دوران تعلیم ہی صحیح فیصلہ لینا چاہیے ۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img