تحریر:شوکت ساحل
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے11 مارچ2020 کی شب دسمبر 2019 میں چین سے شروع ہونے والے ’نوول کووڈ۔19 کورونا وائرس‘ کو عالمی وبا قرار دیا ۔جہاں اس وبا نے اب تک دنیا بھر میںکروڑوں انسانی زندگیوں کو نگل لیا ،وہیں اب بھی زندگی اس وبا سے جوجھ رہی ہے۔
ایک پوشیدہ جرثمہ نے انسانی صحت پر ایٹم بم کی مانند حملہ کرکے زندگی کی رفتار کو ہی منجمد کردیا ۔’نوول کووڈ ۔19 کورونا وائرس‘ کو ’عالمی وبا‘ قرار دیے جانے سے قبل عالمی ادارہ صحت متعدد وائرسز کو ’عالمی وبا‘ قرار دے چکا ہے ،جن میں ہیضے کی وبا، اسپینش فلو، چیچک ۔ماتا، خسرہ، جذام ۔کوڑھ، پولیو، ایشیا فلو، ہانگ کانگ فلو، ایچ آئی وی،تپ دق۔ ٹی بی،ملیریا،سوائن فلو۔ اور ایچ ون، این ون وغیرہ شامل ہے ۔
آج ایک ایسی وبا کے بارے میں بات کریں گے جسکے نشانے پر صرف اور صرف نوجوان نسل ہے ۔جی ہاں ! خطرناک اور جان لیواکرتب بازی ،سیلفی،ویڈیوز اور سوشل میڈیا کی رنگینوں کے جنون نے ہماری نوجوان نسل کو ایک الگ ہی دنیا میں پہنچا دیا ۔ نوجوان نسل کی آنکھوں سے سمارٹ فونز کے اسکرین کی چمک اترتی ہی نہیں ۔اب تو شیر خوار بچے دودھ بھی اس چمک کیساتھ ہی پیتے ہیں ۔ا
ب تو یہ چمک پردے کا شکل اختیار کرچکی ہے۔سمارٹ فونز کا حد سے زیادہ استعمال، امراض چشم کو دعوت دینے کے مترادف ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری نفسیاتی بیماریوں کی وجہ بھی بنتا جارہا ہے ،اُس پر ستم ظریفی یہ کہ ویڈ یوز اور سیلفی بنانے کے چکر میں ہماری نوجوان نسل موت کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سو رہی ہے ۔تاریخ کے مطابق سیلفی یعنی اپنی تصویر خود سے کھینچنا پرانی روایت ہے۔اس سلسلے میں معلومات کریدنی شروع کیں کہ دنیا کی پہلی سیلفی کب، کیسے، کس نے اور کس طر ح سے لی گئی۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ سیلفی کی تاریخ175سال پرانی ہے۔ دنیا کی سب سے پہلی سیلفی175برس قبل1839میں امر یکی ریاست پنسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں30سالہ رابرٹ کارنیلیئس نامی فوٹو گرافر نے لی تھی۔ رابرٹ نے اس وقت اپنے والد کی دکان میں خود ہی اپنے چہرے کا پورٹریٹ بنایا اور اس کام کے لیے لینز کیپ کا استعمال کیا۔رابرٹ نے سب سے پہلے لینز کیپ کو علیحدہ کیا اور پھر دوڑتا ہوا فریم کے درمیان جا پہنچا جہاں وہ اگلے5منٹ تک فریم میں بیٹھا رہا، پھر اس نے لینزکیپ کو اپنی جگہ لگادیا۔
ڈچ خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان اس ”سیلفی“ تصویر میں کامیابی حاصل کر نے کے بعد اس نوعیت کے خصوصی پورٹریٹ بنانے والا باقاعدہ فوٹوگرافر بن گیا۔تاہم آج کی دنیا میں سیلفی لینے کا شوق ایک جنون کی شکل اختیار کرگیا ہے، جس میں نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ بچے، بوڑھے سب ہی شامل ہیں۔
تفریحی مقامات ہوں یا بازار، عوامی ونجی تقریبات ہوں یا تعلیمی ادارے، سبھی جگہوں پر لوگ سلیفی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ لوگوں کے لیے سیلفی لینا یقیناً ایک خوش کن تفریح ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب یہ شوق ایک جان لیوا عمل بھی بنتا جارہا ہے۔کئی ایسی مثالیں موجود ہیں ،اب تو خود کشی کرنے سے قبل کی بھی ویڈیوز منظر عام پر آنے لگیں ۔
کرتب بازی کے دوران ویڈیوز بنانے کا رجحان بھی تیزی سے خطرناک رخ اختیار کرتا جاتا ہے ۔کشمیر بھی اسکی زد میں ہے ،کئی ایسے ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں ،جب نوجوانوں کو گزرتی تیز رفتار ٹرین کے سامنے کھڑا ہونے یا لیٹ کر ٹرین گزر نے کے انتظار تک کے کرتب بازی کرتے ہوئے دیکھا گیا ۔
موٹر سائیکل ون ویلنگ اور بھی خطرناک اسٹنٹس نوجوانوں کی رگوں میں خون کی طرح پیوست ہورہے ہیں ۔فلموں اور سوشل میڈیا کے منفی مضمرات سے متاثر ہو کر ہماری نوجوان نسل اس بات سے شاید واقف نہیں کہ فلموں میں دکھائے جانے والے منظر سچ پر مبنی نہیں ہوتے یا وہ مناظر تمام حفاظتی تدابیرکے تحت ماہرین کی موجودگی میںفلمائے جاتے ہیں ۔ہماری نوجوان نسل کو پوشیدہ وبا آہستہ آہستہ متاثر کرتی جارہی ہے اور ہم سب تما شائی بننے ہوئے ہیں ۔سیلفی،کرتب بازی اور اسٹنٹس سے بھر پور ویڈیوز ایک ایسا مشغلہ ہے ،جسے زیادہ تر نوجوان سوشل میڈیا پراظہار رائے کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس کے بڑھتے رجحان کی بدولت چند سال قبل آکسفورڈ ڈکشنری کی جانب سے ’سیلفی‘ کو سال کا سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا لفظ بھی قرار دیا جاچکا ہے ۔
طبی ماہرین حتٰی کہ سائنسدان بھی سیلفی کو ایک ایسی وبا تسلیم کرنے لگے ہیں، جو خود اعتمادی کے بجائے خود پسندی کے جراثیم تیزی سے بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔ سیلفی کا حد سے زیادہ جنون عوامی مقامات پر نوجوانوں کوایسی حرکتیں کرنے اور خطرات قبول کرنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے جس سے انہیں جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس وبا کی روکتھام کے لئے بھی بیداری مہم کی ضرورت ہے ۔ساتھ ساتھ سماج کے ہر ایک ذی حس شخص کو اس مہلک وبا سے بچنے کے لئے ویکسین دریافت کرنے کے لئے بھی اپنا رول ادا کرنا ہوگا ۔
حکومت کو بیداری مہم چلانی چاہیے اور والدین کو بچوں کی صحیح نشو نما کے لئے اپنے بچوں کی خود کونسلنگ کرنی چاہیے ۔کیوں کہ بچے کی سب سے بڑی اور اولین درسگاہ ماں ۔باپ ہی ہیں ۔ہم سب کو مل کر اس وبا سے نمٹنے میں اپنا اپنارول ادا کرنا ہوگا ۔