جہلم کے کنارے ایسے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ انسان سوچنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ۔رات گئی بات گئی کے مترادف اس شہر کے لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔گزشتہ دنوں لاﺅڈا اور دیگر محکموں کے اہلکاروں نے نسیم باغ ،حبک اور ڈل کے ارد گرد درجنوں مکانان اور دیگر تعمیرات منہدم کیںجن میں تین منزلہ عمارت بھی شامل ہے ۔اسی طرح کا کام میونسپل حکام بھی انجام دے رہے ہیں ۔مگر عوامی حلقوں میں ایک سوال اُبھر کر سامنے آرہا ہے کہ آخر کیوں؟ یہ افسران اور اہلکار حضرات اُس وقت تک خاموش رہتے ہیں، جب تک تین منزل عمارت تعمیر ہوتی ہے ۔کیا کسی سرکاری افسر یا ملازم کو آج تک اس بارے میں اعلیٰ حکام نے پوچھا ہے کہ وہ اُس وقت تک کہاں تھے؟ وہ جان بوجھ کر خاموش کیوں تھے ؟کیونکہ راتوں رات کوئی عمارت تعمیر تو نہیں ہو سکتی ہے؟ نہ ہی بغیر کسی زبانی حکم کے یا مصلحت پسندی کے ایسا کام ہو سکتا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”قانون“ نبھائے جاتے ہیں ،توڑنے کیلئے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔امیر اور اثر ورسوخ کی بنیاد پر لوگوں کو چھوٹ دی جاتی ہے اور اسطرح غریب اور متوسطہ طبقے پر قانون نافذ کیا جاتا ہے ۔آخر یہ دو رُخی کیوں ؟یہ ظلم اور نا انصافی کس کے کہنے بھی جار ی ہے ۔جہلم کے کنارے ہر کوئی سوچتا ہے اور ایک دن اس سوچ سے جہلم میں پھر ایک بار سیلاب آئے گا ،جو ساری وادی کو ڈبودے گا ۔