بدھ, نومبر ۵, ۲۰۲۵
9.6 C
Srinagar

عدل وانصاف۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

شہر خاص کے وانٹہ پورہ عید گاہ علاقے میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ۔نامعلوم افراد نے دوشیزہ پر تیزآب پھینک کر شدید زخمی کردیا ۔اس طرح کا واقعہ کشمیر کے قدر آور سماج میں لمحہ فکریہ ہے ۔کشمیری سماج میں خود کشیوں کا بڑھتا رجحان جہاں پورے معاشرے کو جھنجھوڑ رہا ہے ،وہیںایسے واقعات سماج کی بے حسی کو بھی بیان کرتے ہیں ۔ گوکہ تیز آب کی کھلے عام خرید وفروخت پر پابندی عائد ہے اور اس حوالے سے قانون بھی موجود ہے ۔ تعزیرات ہند کی دفعہ326(اے) کے مطابق تیز آب سے حملہ کرنے والے ملزم کے لئے کم سے کم 10سال کی سزا مقرر ہے جبکہاِسے جرمانے کے ساتھ عمر قید تک بڑھایا جا سکتا ہے۔وادی کشمیر میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ،اس سے پہلے بھی کئی واقعات رونما ہوئے ،ملزمان کو گرفتار کیا گیا ،لیکن سزائیں کیا ہوئیں ؟یہ اب بھی ایک معمہ ہی ہے ،کیوں کہ انصاف میں تاخیر اور عدالتوں میںتاریخ پر تاریخ بھی ایک وجہ قرار دی جاسکتی ہے ۔قانون موجود ہونے کے باوجود آج کل حالت یہ ہے کہ کوئی بھی شخص بازاروں کے اندر موجود تیزابی مادہ خرید سکتا ہے۔ یہ تیزابی مادہ ”سنک اور ٹوائلٹ پائپ “صاف کرنے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لوہے، تانبے اور سونے کو چمک دینے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایسے خطرناک میٹریل کی آسانی سے دستیابی نے لوگوں کو پریشان کردیا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ گھریلو استعمال کی چیزیں بھی آسانی سے ہتھیار بنائی جاسکتی ہیں۔ جیسے کہ کچن میں استعمال ہونے والی چھری یا دیگر آلات کو جارحانہ انداز میں استعمال کرنے سے انہیں ہتھیار میں تبدیل کرنا انسان کی اپنی نیت پر ہوتا ہے، لیکن عدالتوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایک عام استعمال ہونے والے آلہ یا میٹریل اگر ہتھیار میں تبدیل کیا جائے گا ،تو اس کی سزا سخت ترین ہونی چاہئے تاکہ اس کے غلط استعمال کو کسی حد تک روکا جاسکے، کیونکہ جب کوئی شخص عام استعمال کی چیز کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہے تو اس کو روکنا تقریباً ناممکن ہے۔مہاتما گاندھی کا قول ہے کہ ’اگر دنیا میں آنکھ کے بدلے آنکھ کا قانون لاگو کردیا جائے تو آدھی سے زیادہ دنیا اندھی ہوجائے گی۔“گاندھی عدم تشدد کے پرچار تھے لیکن خود ہی تشدد کا نشانہ بن گئے تھے ۔ملک اور جموں وکشمیر کے سماج میں شہر خاص جیسے المناک ،دلخراش اور افسوسناک واقعات کو روکنے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے ۔عبرتناک سزائیں طے کرنی ہوگی ۔عدالتوں میں انصاف میں تاخیر کے نظم کو بدل فاسٹ ٹریک بنیادوں پر کرنی کی ضرورت ہے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تحقیقاتی اداروں کو تفتیش کے دوران ایسے ثبوت جمع کرنے چاہیے تاکہ عدالتوں میں کیسوں کی پیر وی کے دوران ملوثین کو ملزمان نہیں بلکہ مجرمین کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے ۔تاہم انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے دوران کسی بے گنا اور بے قصور کی معصومیت کو بھی ملحوظ نظر رکھنا چاہیے ۔کئی ایسی مثالیں موجود ہیں ،جہاں ہم نے دیکھا کہ بے قصوروں نے جرم بے گنائی میں برسوں اسیری کے ایام کاٹے ،اُنکی جوانیاں قید خانوں میں گزر گئیں ۔اس طرح انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے ہیں ۔عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے پارلیمنٹ کارول کلیدی اور اہم ہے ،یہاں ممبران کو سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے نہیںبلکہ قانون سازی کے لئے اپنی آواز بلند کرنی چاہیے ۔امیر کے لئے الگ اور غریب کے لئے الگ قانون نہیں بلکہ یکساں عدل و انصاف سے ہی سماجی برائیوں ،تیز آب پھینکے کے واقعات ،خود کشی کے بڑھتے واقعات،جہیز کی بدعت اور دیگر سماجی برائیوں کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔حکومت ِوقت کو سخت قوانین بنانے کے لئے اپنا کلیدی رول ادا کرنا چاہیے ۔کیوں کہ

 

 

Popular Categories

spot_imgspot_img