ملک کا نظام تعلیم روز بروز بہتر ہوتا جا رہا ہے مگر جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے یہاں نہ جانے کیوں ابھی بھی اس نظام میں سُدھار نہیں آرہا ہے۔جہلم کے کنارے ایک بچے کا والد دوسرے بچے کے والد سے اس طرح کی گفتگو کر رہا تھااور آہیں بھر رہے تھے کہ اُسکے بچے نے مہینوں قبل امتحان دیا تھا لیکن ابھی تک ریزلٹ یعنی نتیجہ نہیں آسکا ،دوسران والد بھی یہ شکایت کررہا تھاکہ میری بیٹی نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے انٹرویو دیا ہے اور تحریری امتحان بھی۔۔ لیکن جان بوجھ کر اساتذہ کرام نتیجہ میں لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں۔ اسکے برعکس وادی سے باہر ایسا نہیں ہوتا ہے، وہاں بچوں کے امتحان کے فوراً بعد نتیجہ برآمد ہوتا ہے لیکن یہاں برسوں ضائع ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ قوم کا معمار یعنی استاد اب استاد نہیں رہا بلکہ وہ بھی اب تاجر بن چکا ہے۔اسی لئے وہ بچوں کے مستقبل کےساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور صرف ٹھیکہ داروں اور سیاستکاروںں کی طرح مال جمع کرنے میں لگے ہیں ۔راہی گفتگو سن کر حیران ہوا اور من ہی من میں کہتا رہا حقیقت ہے بھائی ۔۔۔کیونکہ اُن کےساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔