سری نگر/ گردوارا پربندھک کمیٹی (جی پی سی) کا دعویٰ ہے کہ حکومت اقلیتی فرقے کے لوگوں کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدام نہیں کر رہی ہے۔
کمیٹی کا مطالبہ ہے کہ اقلیتی فرقے کے لوگوں خاص کر ملازموں کے تحفظ فراہم کرنے کے لئے ٹھوس اقدام کئے جانے چاہئے صرف جملہ بازی سے کام نہیں چلے گا۔
یہ باتیں کمیٹی کے جنرل سکریٹری نوتیج سنگھ نے ہفتے کے روز یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہیں۔
ان کا کہنا تھا؛ ’اقلیتی فرقے کے لوگوں اور ملازموں کے تحفظ کے لئے حکومت نے ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے ہمارا مطالبہ ہے کہ اقلیتی فرقے کے ملازموں جو وادی کے دور دراز علاقوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، کے لئے سیکورٹی کے ٹھوس اقدام کئے جائیں صرف جملہ بازی سے کام نہیں چلے گا‘۔
موصوف جنرل سکریٹری نے کہا کہ حکومت کی طرف سے چھٹی کا اعلان ایک مخصوص اقلیتی فرقے کے لئےکرنا بھی قابل تشوش ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اعلان تمام اقلیتی فرقے کے ملازموں کے لئے کیا جانا چاہئے تھا۔
ان کا کہنا تھا: ’بارہمولہ سے ایک حکمنامہ جاری ہوا ہے جس کے تحت ایک مخصوص اقلیتی فرقے سے وابستہ ملازموں کا ڈیٹا طلب کیا گیا ہے جبکہ باقی اقلیتی فرقے کے ملازمین کو نظر انداز کیا گیا ہے جو آئین کی خلاف ورزی ہے‘۔
انہوں نے کہا: ’تمام اقلیتی فرقے کے ملازمین کا ڈیٹا طلب کیا جانا چاہئے ورنہ ہم سمجھیں گے کہ ہمارے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جا رہا ہے‘۔
مسٹر نوتیج سنگھ نے کہا کہ سکول پرنسپل سپیندر کور کے بہیمانہ قتل کی مذمت وادی کی تمام سیاسی جماعتوں اور حریت کانفرنس نے بھی کی جس پر ہم ان کے مشکور ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’لیکن مقتولہ کو جب آخری رسومات انجام دینے کے لئے لے جایا جا رہا تھا اس جلوس میں اکثریتی فرقے کے لوگوں نے کوئی خاص شرکت نہیں کی‘۔
انہوں نے کہا کہ اس وحیشانہ قتل کے خلاف لوگوں کے دل مجروح بھی ہیں غم وغصے سے بھرے بھی ہیں۔
اس موقع پر موجود کمیٹی کے ایک بزرگ عہدیدار نے کہا کہ کشمیر جو لل دید اور حضرت شیخ نور الدین نوروانی (رح) کی سرزمین ہے پر ایسے واقعات رونما نہیں ہونے چاہئے۔
انہوں نے کہا: ‘مقتولہ نے ایک مسلمان بچی کو گود لیا تھا اور وہ اس بچی کو اپنے ذاتی خرچے سے پڑھاتی تھیں اس کا کیا قصور تھا کہ اس بے رحمی سے اس کو قتل کیا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات رونما ہونے سے سکھ براداری کے لوگ کشمیر سے بھاگنے والے نہیں ہیں۔





