مانیٹر نگ ڈیسک
سرینگر/ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے بھارت سے کپاس اور چینی درآمد کرنے کے سفارش پر فیصلہ موخر کرتے ہوئے ہمسایہ ملک سے تجارتی تعلقات فی الحال بحال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔خیال رہے کہ بدھ کو وزیرِ خزانہ حماد اظہر کی سربراہی میں ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں انڈیا سے پانچ لاکھ ٹن چینی کے علاوہ کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
جمعرات کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کابینہ نے قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے انڈیا سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی تجویز کو موخر کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ایک تاثر یہ ابھر رہا تھا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات معمول پر آ چکے ہیں اور تجارت کھل گئی ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ’اس تاثر پر وزیر اعظم عمران خان اور کابینہ کی واضح اور متفقہ رائے یہ تھی کہ جب تک بھارت، ( کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق) پانچ اگست 2019 کے یکطرفہ اقدامات پر نظرثانی نہیں کرتا اس وقت تک اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ممکن نہیں ہو گا۔‘
خیال رہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے وزارت تجارت کی سمری خود دیکھ کر اسے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دی تھی مگر کابینہ میں اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔بدھ کو قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر نے کہا تھا کہ ملک میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے دنیا بھر سے چینی درآمد کرنے کی بات کی گئی لیکن اس دوران معلومات ملیں کہ انڈیا میں چینی کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں بہت کم ہے اس لیے انڈیا سے پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے
انھوں نے کہا تھا کہ ملک میں چینی کی سالانہ پیداوار 55 سے 60 لاکھ ٹن ہے جو کہ ملکی ضرورت کو فی الحال پورا نہیں کر رہی۔ حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ملک کی ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی بیرون ملک مانگ کی وجہ سے پاکستان میں کپاس کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس بار ملک میں کپاس کی پیداوار تسلی بخش نہیں ہوئی۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بڑی صنعتیں مصر اور دنیا کے دوسرے ملکوں سے کپاس درآمد کر سکتی ہیں لیکن چھوٹی صنعتیں اس کی متحمل نہیں ہو سکتیں اسی وجہ سے انڈیا سے کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
پاکستان میں اس سال کپاس کی پیداوار 57 لاکھ گانٹھوں تک محدود رہی ہے جو گذشتہ چند دہائیوں میں پاکستان کی سب سے کم پیداوار ہے۔ اس کی وجہ کاٹن بیلٹ زون میں گنے کی فصل کی زیادہ کاشت کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی دخل رہا جس کی وجہ سے ملک میں کپاس کی فصل تاریخ کی سب سے کم سطح پر چلی گئی۔دوسری جانب ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا سب سے اہم اور بنیادی خام مال کپاس ہے اور اس شعبے کو ایک کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ گانٹھوں کی ضرورت رہتی ہے تاکہ وہ اس سے اشیا بنا کر انھیں برآمد کر سکے۔ اس شعبے کو ہر سال کپاس درآمد کرنی پڑتی ہے تاہم اس سال فصل میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے یہ مشکلات کا شکار ہے۔یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت کا سلسلہ پانچ اگست 2019 کو مرکزی حکومت کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیل کرنے کے بعد سے معطل ہے۔بشکریہ بی بی سی اردو