ہفتہ, نومبر ۲۲, ۲۰۲۵
5.4 C
Srinagar

جموں و کشمیر کو ایک بڑے زلزلے کے لئے تیار رہنا چاہئے: پروفیسر طلعت احمد

سری نگر، 16 مارچ :  کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ماہر ارضیات پروفیسر طلعت احمد کا کہنا ہے کہ کشمیر زلزلیاتی پیمانے پر زون پانچ میں آتا ہے جس کے پیش نظر ہمیں ایک بڑے پیمانے کے زلزلے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ سال 2005 کا زلزلہ بڑے پیمانے کا زلزلہ نہیں تھا بلکہ یہاں وہ زلزلہ بڑا ہوگا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر قریب 8 ریکارڈ کی جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر خطہ ہمالیہ کا ایک اہم حصہ ہے اور ہمالیائی علاقہ زلزلے آںے کے لحاظ سے کافی سرگرم ہے۔
موصوف نے ان باتوں کا اظہار ایک مقامی روزنامے کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ‘جموں و کشمیر میں سال 2005 میں جو زلزلہ آیا وہ بڑے پیمانے کا زلزلہ نہیں تھا یہاں وہ زلزلہ بڑے پیمانے کا ہوگا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر قریب 8 ریکارڈ ہوگی۔
بتادیں کہ جموں وکشمیر میں8 اکتوبر 2005 کو ایک قیامت خیز زلزلے کے نتیجے میں ایل او سی کے آرپار زائد از 80 ہزار لوگوں کی موت واقع ہوئی تھی اور بے تحاشا مالی نقصان ہوا تھا۔ ریکٹر اسیکل پر اس زلزلے کی شدت 7.6 ریکارڈ ہوئی تھی۔
موصوف وائس چانسلر، جو ارتھ سائنٹسٹ ہیں، نے کہا کہ کشمیر خطہ ہمالیہ کا ایک اہم حصہ ہے اور یہ علاقہ زلزلے کے لحاظ سے کافی سرگرم ہے۔
انہوں نے کہا: ‘کشمیر زلزلیاتی پیمانے پر زون پانچ میں آتا ہے اور ہمیں کسی بھی بڑے زلزلے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ہمارے لئے ایک ہی اچھی بات ہے وہ یہ کہ چھوٹے چھوٹے پیمانے کے زلزلے آتے رہیں تاکہ وقت وقت پر دباؤ کم ہو سکے اور ہم ایک تباہ کن زلزلے سے بچ سکیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ وسطی ہمالیائی خطے میں متعدد ‘ڈارک زونز’ ہیں جہاں کافی عرصہ سے کوئی زلزلہ نہیں آیا ہے جس کی ایک مثال اترا کھنڈ کی ہے۔
موصوف پروفیسر نے کہا کہ زلزلوں کے دوران جو جانی ومالی نقصان ہوتا ہے وہ زلزلوں سے نہیں بلکہ وہ غیر منظم تعمیراتی ڈھانچوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔
جاپان کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ‘جاپان میں بڑے پیمانے کے زلزلے آتے ہیں لیکن وہاں جانی و مالی نقصان بہت ہی کم یا بسا اوقات بالکل بھی نہیں ہوتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں تعمیراتی ڈھانچوں کی غیر منظم تعمیر اور خام مواد کا استعمال جانی و مالی نقصان ہونے کی اہم وجہ ہے۔
موصوف نے کہا کہ کشمیر کی ثقافت کافی قدیم ہے یہاں کے ذہین و زیرک لوگ کوئی تعمیر کھڑا کرنے کے لئے اینٹوں اور لکڑی کا استعمال کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اینٹوں اور لکڑی کے مکانوں اور دیگر تعمیراتی ڈھانچوں کو زلزلوں سے کافی کم نقصان پہنچتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مکان و دیگر تعمیراتی ڈھانچے کھڑا کرنے کے لئے ہمیں بھاری مٹیریل کے بجائے ہلکے مٹیریل کے استعمال کو ترجیح دینی چاہئے۔
مسٹر طلعت احمد نے کہا کہ کشمیر میں کئی خانقاہیں لکڑی کی بنی ہوئی ہیں جو آج بھی صحیح و سالم ہیں جبکہ ان کے نسبت کئی سیمنٹ سے بنے تعمیراتی ڈھانچے زمین بوس ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں سیلاب ایک اور مسئلہ ہے جس کو دوسرے زوایے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا: ‘کشمیر میں سال 2014 میں بادل پھٹنے سے سیلاب آیا اور بادل پھٹنے کا واقعہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیش آیا ہوگا’۔
موصوف وائس چانسلر نے کہا کہ یہاں کبھی بارشیں بالکل بھی نہیں ہوتی ہیں جبکہ کبھی بارشیں تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی ہیں اور اسی طرح کبھی برف باری ہو ہی نہیں جاتی تو کبھی بھاری برف باری ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں جنگلوں کی صفائی ہو رہی ہے جو زمین کے کھسکنے کا باعث بن جاتی ہیں اور مٹی ڈھیلی ہو کر آبی ذخائر تک پہنچ جاتی ہے جس سے وہ تنگ اور اتھلے ہو جاتے ہیں۔
موصوف نے کہا کہ وادی میں سڑکوں کی تعمیر مٹی کے تودے گر آنے کی وجوہات بن جاتے ہیں خاص کر کشمیر شاہراہ پر ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ متبادل روٹس تلاش کرنے کے لئے سروے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے مشکلات کو کم کیا جاسکے۔
یو این آئی ای

Popular Categories

spot_imgspot_img