’کشمیر میں سیکیورٹی صورتِ حال پرامن ‘:فوج

’کشمیر میں سیکیورٹی صورتِ حال پرامن ‘:فوج

تشدد کے عوامل میں نمایاں کمی آئی ،چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار:کور کمانڈر

شوکت ساحل

سرینگر/ سال2020کو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں امن ترین قرار دیتے ہوئے فوج کے اعلیٰ کمانڈر نے کہا کہ کشمیری لوگ امن کے خواہاں ہیں جبکہ وادی کشمیر میں تشدد کے سبھی عوامل میں نمایاں کمی آئی ہے۔پندرویں کور کے کمانڈر ،لیفٹیننٹ جنرل بی ایس راجو نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر معاہدہ دونوں ممالک کا شعوری فیصلہ ہے اور کامیاب بنانے کے لئے کام کرنا ہے۔

سرینگر میں سوموار کو نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے فوج کے اعلیٰ کمانڈر نے کہا کہ وادی کشمیر میں سیکیورٹی صورتحال کافی اطمینان بخش اور پرامن ہے ۔ان کا کہناتھا ’سال 2020انتہائی پرامن سال رہا ،صورت حال معمول کے مطابق ہے ‘۔ بی ایس راجو نے کہا کہ وادی کشمیر میں تشدد کی ہر ایک صورت میں کمی آئی ہے ۔ان کا کہناتھا کہ سنگبازی ،ملی ٹنٹ ریکروٹمنٹ ،احتجاج وبند کا گراف کافی نیچے آیا ۔

پندرویں کور کے کمانڈر بی ایس راجو ، جو نئے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کے عہدے کا چارج سنبھالیں گے ، نے کہا کہ بہت سارے لوگ یقین کرانا چاہیں گے کہ کووڈ۔19وبائی مرض کی وجہ سے وادی میں سیکیورٹی صورتِ حال پر سکون ہے جبکہ ایسا معاملہ نہیں ہے ۔ان کا کہناتھا کہ صورتحا ل اس وجہ سے پرسکون ہے ،کیوں لوگ چاہتے ہیں ،اگر کچھ اچھا ہورہا ہے ،وہ اس لئے کیوں کہ لوگ چاہتے ہیں ،بی ایس راجو نے کہا ’ہمیں سال2021سے کافی امیدیں وابستہ ہیں ‘۔

اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنر ل نے کہا کہ یہاں اکا دکا واقعات ہوتے ہیں ، ایسے عناصر موجود ہیں جو تشدد کو جنم دینا چاہتے ہیں،اُنہیں ایل او سی کے اندر اور اُس پار سے ہدایات ملتی ہیں کہ حملہ کروں ،حال ہی میں کرشنا ڈھابہ حملہ اسکی ایک مثال ہے ۔یہ صرف یورپی یونین کے آنے والے وفد کو ایک پیغام دینے کے لئے کیا گیا تھا کہ یہاں صورتحال پر امن نہیں ہے اور حالات معمول پر نہیں ہیں،یہ ایک ”کلاسک “انداز میں شدت پسندی تھی ۔

لیفٹیننٹ جنرل راجو نے ہندوستان اور پاکستان کے مابین سیز فائر معاہدے کے اعادہ کا خیرمقدم کیا ، اسے ایک مثبت اور دونوں ممالک کے درمیان شعوری فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی معاہدہ ایک مثبت قدم اور دونوں ممالک کا شعور ہے، کام کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ کنٹرول لائن کے اس پار سے عسکریت پسندوں کی دراندازی ابھی بھی ایک چیلنج ہے۔ان کا کہناتھا ’دراندازی اب بھی ایک چیلنج ہے ، لیکن ہم اس پر ہیں، ہم چیزوں کو قابو میں رکھنے اور آبادی کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سرحدوں کے ساتھ صورتحال پر امن رہے گی۔‘

کور کمانڈر نے مزید کہا کہ جنگ بندی سے در اندازی کو روکنے میں مدد ملے گی ۔انہوں نے کہا ،’جب جنگ بندی ہوتی ہے تو دراندازی کو چیک کرنے اور اس پر قابو پانے کی ہماری صلاحیت میں بہتری آجاتی ہے۔جب یہ پوچھا گیا کہ پاکستانی فوج کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی پر ہندوستانی فوج کس طرح ردعمل ظاہر کرے گی تو ، لیفٹیننٹ جنرل نے کہا کہ فوج خوش نہیں ہوگی اور وہ مناسب طریقہ کار کے ذریعہ اس مسئلے کو اٹھائے گی۔”ہمارے پاس مقامی سطح پر بھی اور دہلی میں بھی ایک طریقہ کار موجود ہے۔

طالبان طرز کے’چپچپا بموں‘ کی رپورٹس کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ، آرمی افسر نے کہا کہ’کچھ بھی نیا دستیاب کرنا وادی میں جاری عمل ہے اور ہم اپنا کام کرنے کے لئے ایک مناسب حکمت عملی اپنائیں گے۔‘ایک اور سوال کے جواب میں پندرویں کور کے کمانڈر نے کہا کہ فوج نے گذشتہ سال شمالی کشمیر میں اپنے پیروں کے نشانات کو کم کیا اور یہ ایک جاری عمل ہے۔ انہوں نے کہا ،’جب تشدد میں کمی آتی ہے تو ، طریقہ کار بدل جاتا ہے’۔‘

عسکریت پسندوں کی نئی تنظیموں کے ابھرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر ، جی او سی نے کہا کہ’ایک عسکریت پسند عسکریت پسند ہے‘ اور اس کی تنظیم کے نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا ،’ہم ملی ٹنٹ ریکروٹمنٹ کو روکنے کے لئے بہت سارے اچھے کام کر رہے ہیں، یہاں تک کہ دوسری طرف سے مسلسل سوشل میڈیا پر مبنی پروپیگنڈا جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.